دلخراش سانحے کا ذمے دار کون؟

980

کچھ عرصے پہلے کسی نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک صاحب پاکستان سے لندن گئے وہ لندن کے کسی مضافاتی علاقے میں قیام پزیر تھے ایک دن ان کا نوجوان بیٹا کسی کام سے باہر گیا۔ سترہ اٹھارہ سال اس کی عمر ہوگی وہاں اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اس کے سر میں شدید چوٹیں آئیں وہاں کی ٹریفک پولیس نے اسے مقامی اسپتال پہنچایا اسپتال میں اس بچے کو ابتدائی طبی امداد دی گئی لیکن اس کے سر میں جو شدید چوٹیں آئی تھیں اس مقامی اسپتال میں اس کا علاج نہیں ہو سکتا تھا اس کے لیے شہر کے بڑے اسپتال میں جانا تھا، اسپتال والے چاہتے تو انتظار کرتے کے اس نوجوان کے کوئی عزیز یا والد وغیرہ آئیں گے تو وہ لے جائیں گے اب چاہے اس درمیان میں اس بچے کی موت ہی کیوں نہ واقع ہو جائے اسپتال کی انتظامیہ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اسپتال میں موجود ہیلی کاپٹر (جو اسی کام کے لیے رکھا گیا تھا کہ اگر کسی مریض کا اس چھوٹے اسپتال میں فوری علاج نہ ہو سکے تو اسے شہر کے بڑے اسپتال میں لے جایا جائے) کے ذریعے شہر کے مرکزی اسپتال میں پہنچا دیا گیا جہاں فوری طور پر اس کے سر کا آپریشن کیا گیا اور اس نوجوان کی جان بچ گئی۔ ادھر جب وہ بچہ واپس گھر نہیں آیا اور بہت دیر ہوگئی تو گھر والوں کو تشویش لا حق ہوگئی بچہ کہاں گیا اس کی ڈھونڈ مچی اسی چکر میں مقامی اسپتال پہنچے تو وہاں سے پتا چلا کے اس بچے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اسے شہر کے بڑے اسپتال میں بھیج دیا گیا ہے کہ اس کے سر میں شدید چوٹیں آئی تھیں۔ بچے کے لواحقین شہر کے اسپتال پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کا بچہ وارڈ میں ہے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کے سر کا آپریشن ہوا ہے تھوڑی دیر میں ہوش میں آجائے گا اس نوجوان کے والد اور دیگر رشتہ دار بہت خوش ہوئے کے چھوٹے بڑے دونوں اسپتالوں کے بر وقت اقدام کی وجہ سے ان کے بیٹے کی جان بچ گئی۔
یہ واقعہ میں نے اس لیے لکھا کہ کل کے اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ عباسی اسپتال کی انتظامیہ نے ایک نوٹیفکیشن نکالا ہے کہ سر کی چوٹ والے مریضوں کو رات کے وقت عباسی اسپتال میں نہ لایا جائے کہ ہمارے پاس رات کو سی ٹی اسکین کی سہولت نہیں ہے۔ عباسی اسپتال کے اس فیصلے کا پس منظر کیا ہے اس کے لیے آپ کی خدمت میں 23ستمبر کے مقامی اخبار میں شائع ہونے والی دلخراش خبر پیش کرتے ہیں۔ یہ خبر دیکھیے اور پھر اوپر درج کیے واقعے کو بھی ذہن میں رکھیے۔
چند روز قبل لیاقت آباد کے پل پر ایک 17سالہ نوجوان زخمی حالت میں پڑا تھا لوگ اکھٹا ہوئے لیکن کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اسے اسپتال لے جائے اتنے میں وہاں پر ایک ایمبولینس آ گئی یا کسی نے فون کرکے بلایا بہر حال ایمبولنس ڈرائیور اس زخمی کو لے کر قریبی سندھ اسپتال گیا تو سندھ اسپتال کی ایمرجنسی اسٹاف نے کہا کہ یہ سر کی چوٹ ہے آپ اسے عباسی اسپتال لے جائیں عباسی اسپتال لے گئے تو وہاں کے عملے نے ایمبولینس ڈرائیور کو بتایا کہ ہماری سی ٹی اسکین مشین اس وقت ورکنگ آرڈر میں نہیں ہے یہ صرف دن میں چلتی ہے آپ انہیں سول یا جناح لے جائیں اس زخمی بچے کا کوئی قریبی عزیز والد یا بھائی وغیرہ ساتھ میں نہیں تھا اس لیے کے ان کو تو حادثے کا پتا ہی نہیں تھا ایمبولینس ڈرائیور ہی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس شدید زخمی بچے کو لے کر مختلف اسپتالوں میں بھاگ رہا تھا کہ کسی طرح اس زخمی کی جان بچ جائے پھر وہ ایمبولنس ڈرائیور اسے جناح اسپتال لے گیا جناح اسپتال والوں نے بھی اسے نہیں لیا اور کہا کہ یہ عباسی ہی کا کیس ہے وہیں لے جائیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جناح اسپتال والوں نے کیوں اس بچے کو اپنے یہاں داخل نہیں کیا جبکہ جناح اسپتال تمام سہولتوں سے آراستہ ایک مکمل میڈیکل یونٹ ہے۔
مختلف اسپتالوں میں چکر لگانے کے باوجود کسی اسپتال میں زخمی کو ضروری طبی امداد نہیں دی گئی اور پھر اس زخمی بچے نے ایمبولنس ہی میں تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ خبر ہی میں یہ اطلاع بھی دی گئی محکمہ صحت نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے جو تمام اسپتالوں میں جا کر تحقیق کرے گی کیوں اس زخمی کو متعلقہ اسپتال میں ابتدائی طبی امداد نہیں دی جاسکی یہاں پر کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں اس ہلاکت کا ذمے دار کون ہے؟ عباسی اسپتال شہر کے بڑے اسپتالوں میں سے ہے روڈ ایکسیڈنٹ کے زخمی یہاں پر نہ لائے جائیں تو پھر کہاں لے جایا جائے؟ اتنا بڑا اسپتال جس کا کروڑوں کا بجٹ ہے وہاں سی ٹی اسکین مشین کے لیے رات کے لیے ایک ٹیکنیشن نہیں رکھا جا سکتا۔ اس بچے کی موت کا ہمارے نزدیک اصل ذمے دار جناح اسپتال ہے جہاں سر کے چوٹ کے حوالے سے دنیا کی جدید ترین مشینیں ہیں انہوں نے کیوں اس بچے کے علاج سے انکار کیا؟ ہم سمجھتے ہیں اس سانحے کو ایک ٹیسٹ کیس بناتے ہوئے جناح اسپتال شعبہ حادثات کے اس وقت کے اسٹاف کو گرفتار کیا جائے اور ان پر قتل کا مقدمہ درج کیا جائے کہ ان کے اس طرح کے سنگدلانہ رویے کی وجہ سے بچے کی جان گئی اس کے ساتھ ہی ایک گزارش یہ بھی ہے کہ اس ایمبولنس ڈرائیور کو بھی اس کے ادارے کی طرف سے تعریفی سند کے ساتھ اسے نقد انعام بھی دیا جائے۔
اس مرحلے پر ہمیں اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسے واقعات کا کیسے تدارک کیا جائے کہ ہمارے یہاں کا پولیس تفتیشی نظام ایسا ہے کہ آدمی روڈ پر شدید زخمی حالت میں پڑا ہے لیکن دل میں ہمدردی رکھنے کے باوجود کوئی فرد اسے اسپتال لے جانے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ وہ اسے لے کر گیا اور اسے ہی تفتیش کے لیے روک لیا جائے گا چاہے اسے کتنا ہی ضروری کام ہو وہ وہاں سے جا نہیں سکتا۔ میرے ذہن میں اس حوالے سے کئی تفصیلی تجاویز ہیں جنہیں آئندہ کسی مضمون میں شامل کردیا جائے گا کہ ہمارے ملک میں بہت ساری این جی اوز کام کررہی ہیں کوئی ایسی این جی او بھی ہونی چاہیے جو سڑک پر پڑے لاوارث زخمیوں کی وارث بن جائے، فی الحال تو ہمارا مطالبہ ہے کہ اس بچے کی انکوائری رپورٹ شائع کی جائے اور یہ کہ بچے کے لواحقین نے متعلقہ اسپتالوں کے خلاف عدالت میں جانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے اس حوالے سے سماجی تنظیمیں اس مغموم خاندان کی مدد کریں۔