کراچی (خالد مخدومی ) طالبان کی فتح کی کلیدی وجہ ان کا ایمان اور اس کی وجہ سے لڑتے رہنے کا عزم ہے ، امریکا کاافغانستان سے نکل جانا مظلوموں کی فتح ہے،اللہ تعالیٰ نے اہل ِ ایمان کے ساتھ نصر مبین کا وعدہ کیا ہے۔ اللہ کے وعدے کے سامنے ٹیکنالوجی کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے، بدر میں 313 کے لشکر نے کئی ہزار کے لشکر کو شکست دی ان خیالات کا اظہارمہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ مفتی نعمان نعیم، امریکا میں مقیم بین الاقوامی امور کے ماہرمسعود ابدالی اور پروفیسر سلیم مغل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا جس میں ان سے پوچھا گیا تھاکہ کیا افغانستان میں طالبان کی فتح ٹیکنالوجی پر ایمان کی فتح ہے؟مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ مفتی نعمان نعیم نے جسارت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ِ ایمان کے ساتھ نصر مبین کا وعدہ کیا ہے، وہ دین کو غالب کرے گا اوردشمنوں کو ہلاک کردے گا،اگرچہ ایک طویل مدت کے بعد ہی کیوں نہ ہو اللہ کے اس وعدے کے سامنے ٹیکنالوجی کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے،میری نظر میں توٹیکنالوجی کا ایمان سے تقابل بنتا ہی نہیں کیونکہ جب اللہ کا وعدہ فتح کا ہے تو پھر مخلوق کا تقابل کیسے کیا جاسکتا ہے، ان کا کہنا تھاکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ، ’’جو لوگ ایمان لائے اچھے کام کیے انہیں زمین میں خلافت دے گا اور پہلے والوں کو بھی دی ہے‘‘ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں حق و باطل کا پہلا معرکہ بدر 313نے کئی ہزار کے لشکر کو شکست سے دو چار کیا ، اسی طرح فتح مکہ جس میں بغیر لڑائی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائی، آج تک دنیا اس پر حیرت زدہ ہے۔مفتی نعمان نعیم کا مزید کہنا تھاکہ فتح یاب ہونے کے لیے صرف ایمان ہی کافی نہیں بلکہ ایمان کامل، اعمال صالحہ اور توکل خداوندی ضروری ہے پھر اللہ مظلوموں کو فتح یاب کرتا ہے۔ اس پر اترانا نہیں چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل وکرم پراس رب کے حضور سجدہ شکر بجا لانا چاہیے۔ امریکا کاافغانستان سے نکل جانا مظلوموں کی فتح ہے جو عرصہ دراز سے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا شکار تھے۔ امریکا میں مقیم دانشور اوربین الاقوامی امور کے ماہرمسعود ابدالی نے جسارت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ان کا جواب اس معاملے پر تھوڑ اغیر روایتی ہوگا ، مسعود ابدالی کے خیال میںطالبان کی فتح کو ٹیکنالوجی کے مقابلے پر ایمان کی فتح نہیں قرار دیا جاسکتا ہے کیوں کہ ایمان اور ٹیکنا لوجی ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں، اللہ پرایمان رکھنے والے ہمیشہ اس وقت کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں سرگرداں رہتے تھے، حضرت سلمان کے دور سے ان کے گھوڑے تیار رہتے تھے، خود قرآن ہر وقت تیار رہنے اور جدید ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی ترغیت دیتا ہے، ان کا کہنا تھاکہ افغان جہاد کے ابتدائی ایام میں مجاہدین کے پاس توڑے دار بندوقیں اور پھٹے پرانے جوتے تھے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے جدید ٹیکنالوجی اور جدید ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کی اور جہاد کے آخری برسوں 2019ء اور 2021ء میںان کی جانب سے ڈرون تک استعمال کیے گئے ،مسعود ابدالی کے مطابق یہ ڈرون اگرچہ امریکی معیار کے نہ تھے تاہم اس کے استعمال سے طالبان مخالف قوتوںمیں خوف پھیلا بلکہ کہاجاتا ہے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغان فوج کی جانب سے فوری طورپر ہتھیار ڈالے جانے کی بڑی وجہ ان ہی ڈرون حملوںکا خوف تھا، تاہم مسعود ابدالی کا کہنا تھاکہ گوکہ مجاہدین نے دور جدیدکے ہتھیار اور ٹیکنالوجی حاصل کرلی تاہم ان کی فتح کی بنیادی وجہ ان کا ایمان اور جہد مسلسل کا عزم تھاجس کی وجہ سے ڈٹے رہے اور لڑتے رہے ،مسعود ابدالی کا مزید کہنا تھاکہ طالبان کی فتح کی کلیدی وجہ تو واضح طور پر ان کا ایمان اور اس کی وجہ سے لڑتے رہنے کا عزم ہے۔ مسعود ابدالی کا کہنا تھاکہ ایمان کی کلیدی طاقت کا نتیجہ ہی تھاکہ 2008 ء میں اس وقت کے امریکی صدر بارک اوباما نے آج کے وزیر دفاع اور اس وقت کے امریکی جنرل ایڈم لائیڈ کو اپنی پہاڑی ڈویژن فوج کے ساتھ افغانستان بھیجا، اوباما کاخیال تھا کہ طالبان پہاڑوں میںرہتے ہوئے لڑتے اور ہماری وہ ان سے لڑنے والی فوج میدانی ہے اس لیے وہ ناکام ہے تاہم جنرل لائیڈ 2 سال بعد افغانستان سے ناکام واپس آگئے اور اعتراف کیا کہ ان کو ٹینکوں کے ذریعے شکست دینا ممکن نہیں، مسعود ابدالی کا کہناتھاکہ مکمل ایما نی قوت کے باوجود طالبان نہ صرف یہ کہ جدیدٹیکنالوجی اورہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے بلکہ اپنی سیاسی حکمت عملی بھی ترتیب دیتے رہے اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ غیرملکی افواج کے افغانستان سے نکلتے ہی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ایک بڑی فوج نے بہت ہی حیران کن انداز میں طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے،یہ طالبان کی سیاسی بصیرت کی وجہ سے ہی ممکن ہوا،مسعود ابدالی کے مطابق طالبان ٹیکنالوجی کے بارے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ، بلکہ امریکی افواج جو جدید ترین ہیلی کاپٹر اور جہاز افغانستان میں چھوڑ گئے تھے وہ طالبان نے خود ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے کیوں کہ ان کو خدشہ تھاکہ امریکا بمباری کرکے ان کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا ، طالبان کی جانب سے ان جدید ترین ہیلی کا پٹروں اور جہازوں کو اڑائے جانے کی وڈیوز اور تصاویر سی این این پر نشر کی گئیں،مسعود ابدالی نے طالبان کی جانب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو سی این این کے مقابلے کی قرار دیتے ہوئے کہاکہ امریکا نے بڑی کوشش کی کسی طرح افغانستان کے موجودہ نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد کا سیٹلائٹ فون کسی طرح بند کردے لیکن وہ ذبیح اللہ مجاہد کا فون ایک دن بھی بند نہ کراسکا ، وہ بھرپور طریقے سے بین الاقوامی میڈیا سے رابطے میں رہے ،اپنی خبریں اور جنگ کے نقشے میڈیا کو فراہم کرتے رہے، اسی طرح طالبان نے باہمی رابطے کے لیے افغانستان بھر میں 100 سے زاید ریڈیو اسٹیشن قائم کیے ہوئے تھے ،پہاڑی دروں پر بنے ان ریڈیو اسٹیشنوں کو تباہ کرنے کی امریکی کوشش مکمل طور پر ناکام رہی اگر کسی ہوائی حملے میں ایک آدھ اسٹیشن کو نقصان پہنچ بھی جاتا تو وہ دو چار دن میں دوبارہ کام کرنے لگتا۔معروف قلم کار پروفیسر سلیم مغل نے جسارت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان کا ایمان کبھی بھی اور کسی طرح بھی ٹیکنالوجی پر نہیں ہوسکتا، مسلمان کا ایمان اللہ کی مدد پر ہوسکتاہے ،اپنے عقائد پر ہوسکتا ہے، اس بات پر ایمان ہوسکتاہے کہ فتح وشکست اللہ کی جانب سے ہوتی ،تاہم پروفیسر سلیم مغل نے کہاکہ سوال میں کہی گئی یہ بات کہ طالبان نے فتح حاصل کرلی ہے قبل از وقت ہے ۔