عدالت عظمیٰ، حکومت سندھ اور کراچی

340

اگر صوبہ سندھ کے کسی بھی مقام پر صرف اتنا کہا جائے کہ ’’آہ سندھ حکومت‘‘ تو سننے والے دس افراد میں سے آٹھ کے چہروں پر طنزیہ اور معنی خیز مسکراہٹ آ جائے گی جبکہ باقی دو مفکرانہ سوچوں میں ڈوب جائیں گے۔ اور اگر یہ کہہ دیا جائے کہ ’’پیپلز پارٹی کی یہ حکومت ایماندار اور دیانت دار ہے‘‘ تو یقین جانیے کہ موقع پر موجود سیکڑوں، ہزاروں افراد بھی اپنی ہنسی روک نہیں سکیں گے اور کہنے والے کو دیکھ کر قہقہے مارنے لگیں گے، ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ حکومت اور حکمرانوں کی شرمناک حالت پر افسردہ ہوتے ہوئے آب دیدہ بھی ہوجائیں۔ مگر اس کے باوجود کیا مجال ہے کہ حکمرانوں اور ان کے رہنماؤں کے کانوں پر جوں تک رینگے، یا ان کے چہرے ندامت سے جھک سکیں۔
ان حکمرانوں کے چہرے تو لاڑکانہ اور نواب شاہ میں بھی کتوں کے کاٹنے کے واقعات پر شرمسار نظر نہیں آئے، صوبے کے عام سندھی مہاجر، پنجابی اور پختونوں کی رائے ایک ہی ہے کہ اس حکومت کے لوگ بے حس ہیں، بہت سے افراد یہ کہنے پر بھی مجبور ہیں کہ سندھ کی حکومت سے وابستہ عناصر انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں وہ شرم وہ حیا اور غیرت کے الفاظ سے نا بلد ہیں۔ لیکن یہ بات بھرپور اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ چیف جسٹس گلزار احمد کو اب بھی یقین ہے کہ سندھ کے حکمران نا صرف انسان ہیں بلکہ انسانوں والی حس بھی رکھتے ہیں، تب ہی تو انہوں نے سندھ کے حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’کراچی شہر نہیں، شیم آن سندھ حکومت‘‘۔ چیف جسٹس کے اس سخت تبصرے کے بعد سب کو یقین تھا کہ اگر یہ عام یا خاص انسانوں پر مشتمل حکومت ہے تو کوئی ایک تو ہوگا جو شرم سے ڈوب مرے یا نہ مرے، کم ازکم مستعفی تو ہو جائے گا۔ مگر ایسا بھی نہیں ہوسکا۔ حالانکہ حکمرانوں میں بڑے بڑے سید اور شاہ ہیں۔
صوبے کی ناقص حکمرانی کا رونا، لاڑکانہ اور نواب شاہ سے ہوتا ہوا دارالحکومت کراچی پر ختم ہوتا ہے، جہاں وزیر اعلیٰ سندھ سمیت سب ہی وزراء، مشیران اور معاونین خصوصی کی عالی شان رہائش گاہیں، دفاتر موجود ہیں۔ یہ تمام لوگ آبائی علاقوں سے زیادہ کراچی ہی میں رہا کرتے ہیں مگر اس کے باوجود کسی کو کراچی کے بہتے ہوئے گٹر، خشک نلکے، گندگی اور غلاظت کے پہاڑوں سے بھر پور گلیاں اور محلے اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں نظر نہیں آتیں اور نہ ہی انہیں مختلف مسائل کے سدباب کے لیے ،چیختے چلاتے احتجاج کرتے اور نعرے لگاتے ہوئے لوگ بھی نظر آتے، جس سے گمان ہوتا ہے کہ وہ اندھے بہرے اور گونگے ہیں یا اپنے یہ جسمانی اعضاء نکال کر اپنے فرائض انجام دیا کرتے ہیں۔ یہ لوگ سندھ سیکرٹریٹ وزیر اعلیٰ ہاؤس آیا جایا اور بیٹھا تو کرتے ہیں، مگر ان اہم عمارتوں کے آس پاس اور راستے میں موجود اور گلیوں کی طرف دیکھتے تک نہیں یا انہیں اپنی ائرکنڈیشنڈ، کالے شیشوں والی گاڑیوں سے کچھ دکھائی نہیں دیتا یا پھر شاید وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
سندھ حکومت کے دفتری نظام کو قریب سے دیکھنے والے افراد کا دعویٰ ہے کہ ان دفاتر میں صرف کرپشن، بے قاعدگی اور لاقانونیت کے کاموں کو ترجیح دی جاتی ہے باقی سب کام اور ان سے متعلق فائلیں کچھوے کی چال ایک دفتر سے دوسرے دفتر کی طرف گھومتی رہتی ہیں۔ یہ حکومت جانوروں کو مختلف امراض سے بچانے کے لیے 22 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی مچھر دانیاں تو خریدنے کا فیصلہ کر سکتی ہے مگر کراچی سمیت صوبے بھر کے اسپتالوں میں بے یار و مددگار داخل ایک کروڑ افراد کو ہنگامی علاج کی بنیادی سہولت فراہم نہیں کر سکتی، اس حکومت کی خصوصیت یہ ہے کہ اندرون سندھ کے بلدیاتی اداروں کو غیر معمولی فنڈز جاری کرتی ہے مگر سب سے بڑے شہر کراچی کے اسپتالوں میں زیرعلاج کسی بھی مریض کو مفت ادویات کی فراہمی نہیں کر سکتی نا ہی اس شہر کے باسیوں کو ان کی ضروریات کے مطابق کسی بھی قسم کی کوئی سہولت دینے کے لیے تیار ہے۔ نتیجے میں شہر میں کوئی بھی نظام عالمی کیا مقامی معیار کا بھی نہیں رہا جبکہ دوسری طرف کراچی کے مختلف اداروں، انتظامی اور ترقیاتی اداروں کے دفاتر پر جیالوں اور سندھ کا ڈومیسائل رکھنے والے افسران کو کھپانا اس حکومت کی ترجیح لگتی ہے۔
حکومت نے شہر کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مہاجر جیالے مرتضیٰ وہاب کو ایڈمنسٹریٹر کراچی تو مقرر کر دیا اپنے فرائض انجام دینے کے لیے انہیں اختیارات اور وقت بھی دینے کو تیار نہیں حالانکہ مشیر موصوف وقت یہ ضیاع کا ایک ریکارڈ قائم کرچکے ہیں۔ یہ وہی موصوف ہیں جنہوں صوبے میں حکومت کی مرضی کے احتساب کے لیے صوبائی احتساب بیورو، وفاقی حکومت کے قومی احتساب بیورو کے مقابلے میں قائم کرنے کی تجویز دی تھی، ان کی اس تجویز پر صوبائی احتساب بیورو بنایا گیا تھا بلکہ اسے کابینہ کے بعد سندھ اسمبلی سے منظور بھی کرالیا گیا تھا تاہم گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بیورو کے قیام کی بل کی منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا اور بل مسترد کر دیا تھا۔ ایڈمنسٹریٹر صاحب فرماتے ہیں کہ وہ ریونیو بڑھانے کے لیے وفاقی حکومت کے ادارے کے الیکٹرک کہ بلوں کے ذریعے بلدیہ کراچی کے ایم یو سی ٹی بل وصول کرکے اور بلدیہ عظمیٰ کے محکمہ لینڈ اور اسٹیٹ کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرکے یہاں کی آمدنی میں اضافہ کریں گے، ممکن ہے کہ ایڈمنسٹریٹر نے اسی نیت سے نیب کے مقدمات میں ملوث کرپٹ افسران طارق صدیقی اور امتیاز ابڑو پر مشتمل اصلاح کمیٹی بھی قائم کی ہو کیونکہ شاید ایڈمنسٹریٹر کے خیال میں، جسے خود اصلاح کی ضرورت ہو اس سے بہتر کون ریفارم کرسکتا ہے؟ بہرحال یہاں گفتگو کا آغاز چیف جسٹس عدالت عظمیٰ جناب جسٹس گلزار احمد کے کلمات سے شروع کیا گیا تھا۔
گزشتہ بدھ کو شہر قائد میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے تبصرہ کیا کہ ’’حکومت میں کچھ نہیں ہورہا، سندھ میں سردرد صورتحال ہے، ورلڈ بینک کے کتنے منصوبے ہیں مگر کچھ نہیں ہورہا، وزرا اور باقی سب کے لیے فنڈز ہیں ، باقی سارے امور چلا رہے ہیں، صرف عوام کے لیے پیسے نہیں، یہ عدالت عظمیٰ کو طے کرنا ہے کہ پیسے کہاں خرچ کرنا ہیں؟ جب تک نالہ متاثرین کو گھر نہیں دیتے، وزیراعلیٰ اور گورنر ہائوس الاٹ کر دیتے ہیں، جنہوں نے یہ زمینیں الاٹ کیں، ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا‘‘۔ چیف نے حکومت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ: ’’شیم آن سندھ حکومت۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جس بلڈنگ کو اٹھائو اس کا برا حال ہے، سٹرکیں ٹوٹیں، بچے مریں، کچھ بھی ہو، یہ کچھ نہیں کرنے والے، یہ حال سندھ حکومت کا اور یہی حال وفاقی حکومت کا بھی ہے، سب پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں، سیاسی جھگڑے اپنی جگہ مگر لوگوں کے کام تو کریں، پورا کراچی گند میں بھرا ہوا ہے، گٹر اُبل رہے ہیں، تھوڑی بارش میں شہر ڈوب جاتا ہے، کیا یہ کراچی شہر ہے، غیر قانونی قبضوں اور تجاوزات کی بھرمار ہے، کوئی سڑک ، کوئی گلی دیکھ لیں ، ٹوٹی ہوئی ہے، کچھ نہیں کراچی میں، یہ تو گاربیج دکھائی دیتا ہے، شہر اس طرح چلایا جاتا ہے؟‘‘
چیف جسٹس عدالت عظمیٰ سمیت پوری بینچ کے ریمارکس سے یہ یقین ہوتا ہے کہ عدلیہ بہت کچھ کرنا چاہتی ہے لیکن اس کے فیصلوں اور احکامات پر فوری عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے معاملات التوا میں رہتے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کے لوگوں کو عدلیہ سے توقع ہے کہ کراچی کی ترقی کا قبلہ درست سمت کی طرف لے جائے گی اور کراچی کو نقصان پہنچانے والے سرکاری وغیر سرکاری عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کا حکم دے گی۔