سعودی عرب سے مذاکرات میں سنجیدہ پیشرفت کا ایرانی دعویٰ

433

تہران (انٹرنیشنل ڈیسک) ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان خلیج کی سلامتی کے معاملے پرمذاکرات میں سنجیدہ پیش رفت ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران میں عراقی دارالحکومت بغداد میں سعودی حکومت کے ساتھ ہماری بات چیت کے کئی ادوارہوئے ہیں۔ ان میں مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، جو نتیجہ خیز رہا۔ ایران کے سرکاری خبررساں ادارے ارنا کے مطابق خطیب زادہ کا کہناتھا کہ خطے کے مسائل کاحل خطے کے اندرہی سے ایک جامع میکانزم کے ذریعے تلاش کیاجا سکتا ہے۔ ایران ایک طویل عرصے سے مشرقِ وسطیٰ میں غیرملکی مداخلت کے خلاف آواز بلند کرتارہا ہے۔ یاد رہے کہ بدھ کے روز سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہاتھا کہ ایران ایک پڑوسی ملک ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس کے ساتھ ہماری ابتدائی بات چیت اعتمادپیدا کرنے کے ٹھوس نتائج کا باعث بنے گی اور اس سے عوام کی خواہشات کے مطابق تعاون کی راہ ہموارہوگی۔شاہ سلمان کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات بین الاقوامی قانون کے اصولوںکی تعمیل، خودمختاری کے احترام اور دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی کے تحت ہوں گے۔ تہران حکومت کو چاہیے کہ وہ دہشت گرد گروہوں اور ملیشیاؤں کی ہر قسم کی حمایت سے دستبردار ہوجائے، کیوں کہ یہ گروہ صرف جنگ کے علمبردارہوتے ہیں اور دنیا کے لوگوں کے لیے تباہی اور مصائب کا سبب بنتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب اور ایران نے اپریل میں کشیدگی پرقابو پانے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔ عراقی صدر برہم صالح نے تصدیق کی تھی کہ بغداد نے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔ دوسری جانب امریکا نے کہا ہے کہ ایران نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات چاہتا ہے۔ ایک سینئر امریکی عہدے دار کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ ہمارا براہ راست رابطہ نہیں ہے، اس لیے ہمارے لیے اس معاملے پر امید یا مایوسی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 ء میں جوہری معاہدہ ختم کرنے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ایران نے بھی 2019 ء میں جوہری سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ رواں سال کے آغاز میں معاہدے میں شامل دیگر ممالک برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس سمیت بالواسطہ طور پر امریکا سے مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے تھے۔