روس ،چین ،پاکستان ،ایران اور ترکی نئے بلاک کی تشکیل پر پیش رفت کررہے ہیں

559

(رپورٹ: میاں منیر احمد) کیا روس، چین، پاکستان ایران اور ترکی ایک نیا بلاک تشکیل دینے کی جانب گامزن ہیں؟ جسارت کے اس سوال کے جواب میں تجزیہ کاروں نے رائے دی ہے کہ ایسا ممکن ہے اور اس جانب پیش رفت ہو بھی رہی ہے تاکہ باہمی معاشی مفادات کا تحفظ ہوسکے، تجزیہ کار عظیم چودھری نے کہا کہ کہ کم و بیش 20 سال قبل جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد نے چین کے پاکستان میں سفیر سے اپنی ملاقات میں ایسے کسی منصوبے کی تجویز دی تھی کہ اس خطہ میں امریکا کااثر کم اور بتدریج ختم کرنے کے لیے ایک ایسا منصوبہ لایا جائے، ترکی بھی اس طرح کے منصوبے کا حصہ ہے، بلکہ حماس کے خالد مشعل بھی اسی سلسلے میں پاکستان آئے تھے، ترکی میں طیب اردگان اور ان کے ہم خیال رہنماء موجود ہیں جنیں یہ منصوبہ شروع کرنے میں کوئی دقت نہیں بلکہ ان کی خواہش ہے، افغان رہنماء حکمت یار بھی اس منصوبے کے بارے میں ان رہنمائوں کی گفتگو اور باہمی ہم آہنگی کا حصہ رہے ہیں اور ان سے بھی ملاقات ہوئی تھی، قاضی حسین احمد جیسے رہنماء کی دور اندیشی تھی کہ انہوں نے اس منصوبے کے بارے میں کوشش بھی کی اور اس گفتگو کا موضوع بھی بنایا ہمیں ان کی اس بصیرت اور دور اندیشی کا قائل ہونا پڑے گا، ڈیفکلیریا کے سینئر ممبرز سیکرٹری ایجوکیشن فہد جعفری نے کہا کہ ترکی، ایران اور پاکستان کی حکومتیں 2021ء میں استنبول، تہران اور اسلام آباد کو ملانے والی بین الاقوامی ریل سروس کو بحال کریں گی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) چین اور ترکی کے درمیان ریل رابطہ فراہم کر کے، ایشیا نے سیکھا ہے۔اس عظیم الشان منصوبے کی جڑیں اقتصادی تعاون تنظیم کی چھتری تلے 2009 میں شروع کی گئی آئی ٹی آئی کنٹینر ٹرین سروس میں مل سکتی ہیں۔ ای سی او ایک 10 رکنی سیاسی اور معاشی بین سرکاری تنظیم ہے جو 1985 میں ایران، پاکستان اور ترکی نے قائم کی تھی۔کنٹینر سروس صرف ٹیسٹ رن کے طور پر حاصل کی گئی، تاہم، اور کبھی مکمل طور پر آپریشنل نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود، تینوں ممالک نے ہمیشہ مسافروں کی خدمات کے ساتھ ابتدائی مال بردار ٹرینوں کی پیروی کرنے کا منصوبہ بنایا۔ بہت بڑا راستہ 6،540 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جو دنیا کے دائرے کے چھٹے حصے سے زیادہ ہے کچھ1950، کلو میٹر ٹریک ترکی میں ہے، ،2600 کلومیٹر ایران میں اور مزید،990 1کلومیٹر پاکستان میں ہے استنبول سے اسلام آباد کے سفر میں دس دن لگیں گے – ترکی اور پاکستان کے درمیان سمندری راستے سے 21 دن سے کہیں زیادہ تیز ہے، یہ پروجیکٹ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک دو سالوں میں بوسٹر ہے اور آف کورس ترکی لانچ معاہدہ ایک نیا ورلڈ آرڈر ہے دنیا کی سپر پاور بدل جائے گی، 2023 سال عالمی معیشت کو بدل دے گا اور یہ بلاک عالمی تجارتی معیشت کو بدل دے گا اور پاکستان کی معیشت زیادہ طاقتور ہو گی اور یہ ڈالر کرنسی کی قدر کم کرے گی اور کاغذی کرنسی ہو گی مستقبل میں غائب ہو گی کیونکہ کوویڈ 19 دنیا کی روایت کو تبدیل کرتا ہے اور کرنسی ڈیجیٹل میں منتقل ہو رہی ہے RCEP سب سے طاقتور تجارتی بلاک ہے جو 15 ممالک پر مشتمل ہے پاکستان وہاں موجود نہیں ہے، یہ بلاک مستقبل میں اس بلاک میں انٹری دے سکتا ہے کیونکہ ہم FATF کی گرے لسٹ سے نکل جائیںگے تو وہ مستقبل میں پاکستان کو اس مشکل سے باہر نکالنے میں اس فورم میں ووٹنگ کے وقت مدد کریں گے، پاکستان سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے رکن اور سینئر قانون دان ڈاکٹر صلاح الدین مینگل( تمغہ امتیاز) نے کہا کہ روس کی بہت عرصے سے خواہش ہے کہ وہ بلوستان کے ساتھ بحری روٹ پر عالمی منڈیوں تک پہنچے، یہی خواہش چین کی بھی ہے، ایران نے تو تاجکستان کے راستے ماسکو تک ایک سڑک بچھائی ہوئی ہے وہ بھی اس بلاک کا حصہ بن سکتا ہے البتہ ترکی بھی تک اس طرح کے کسی منصوبے میں نہیں مگر وہ آسکتا ہے اگر ترکی بھی آجائے تو یہ ایک باہمی ماعشی مفادات کا یہ ایک بہترین منصوبہ ہوسکتا ہے، رئیل اسٹیٹ بزنس سے وابستہ تنظیم فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے سینئر رکن اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ منصوبہ ہر لحاظ سے قابل عمل ہے، کیونکہ اس وقت افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج نکل گئی ہیں اور یہ خطہ کم از کم اس وقت تو امریکیوں کے اثر سے دور بھی اور پاک بھی ہے اس وقت سے فائدہ اٹھانا اور کوئی ایسا مشترکہ منصوبہ لانا جس سے اس خطہ کے ممالک باہم مشترکہ معاشی مفادات کے ساتھ کام کر سکیں یہ بہت ضروری ہے اگر اس جانب کوئی پیش رفت ہورہی ہے تو اسے خیر مقدم کیا جانا چاہیے اور اگر یہ منصوبہ کسی پائپ لائن میں ہے تو اسے سامنے لایا جائے اس منصوبے سے افغانستان میں استحکام پیدا ہو سکتا ہے ‘معاشی سرگرمیاں شروع ہونے سے یہاں تبدیلی بھی آجائے گی، جماعت اسلامی اسلام آباد کے نائب امیر ملک عبد العزیز نے کہا کہ روس کی بہت عرصے سے خواہش ہے کہ بحری روٹ پر عالمی منڈیوں تک پہنچے ‘کوئی ایسا مشترکہ منصوبہ جس سے خطے کے ممالک مشترکہ معاشی مفادات کے ساتھ کام کر سکیں بہت ضروری ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ضیاء الحق شہید ) کے صوبہ پنجاب کے صدر میاں ساجد حسین نے کہا کہ اس منصوبے سے شہید ضیاء الحق کے خواب کو جلا ملی گی جنہوں نے سب سے پہلے روس کو افغانستان سے واپس جانے پر مجبور کیا اور وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کے مفاد میں ہی فیصلے کیے جائیں اور کسی سپر پاور کو اپنے کسی فیصلے کے تحت اس خطے میں داخل نہ ہونے دیا جائے مگر اب ایک ایسی صورت حال ہے کہ پاکستان اپنے معاشی مفادات کا بھی تحفظ چاہتا ہے یہ بلاک وقت کی ضرورت ہے اسے بننا چاہیے