طالبان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم

826

افغانستان سے امریکی افوج کی رسوائی کے ساتھ پسپائی کے بعد مغربی حلقوں اور اس خطے میں ان کے لے پالک دانشوروں کے پیٹوں میں مروڑ وں کا اٹھنا تو ایک فطری امر ہے لیکن ان عناصر کو چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور مومن ہے توبے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کے آفاقی نظریے پر یقین نہیں ہے اس لیے یہ لوگ امریکی انخلا کے ٹائم ٹیبل کے متعلق اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ امریکا چونکہ انخلا سے قبل نہ صرف ایک مستحکم سیاسی سیٹ اپ اور خاص کرکثیر سرمایہ خرچ کر کے افغانستان میں ایک جدید اور اعلیٰ تربیت یافتہ فوج چھوڑ کرجا رہاہے اور چونکہ اس کٹھ پتلی حکومت کو انخلا کے بعد بھی امریکا کی معاشی، عسکری اور تکنیکی سپورٹ حاصل رہے گی لہٰذا اشرف غنی ٹولے کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اشرف غنی کے متعلق اس رائے کو ان کے آخر وقت تک کیے جانے والے بلند بانگ دعوئوں جو اب لطیفے بن کر نہ صرف گھر گھر مذاق کا سامان فراہم کرکے ان کا پیچھا کررہے ہیں کی وجہ سے تقویت مل رہی تھی بلکہ اس تاثر کی ایک اور بڑی وجہ افغانستان سے 1989 میں سوویت انخلا کے بعد اس وقت کی سوویت کٹھ پتلی ڈاکٹر نجیب انتظامیہ کا تین سال تک مجاہدین کا مقابلہ کرتے ہوئے کابل کا دفاع کرنا تھا حالانکہ ان دنوں اگر ایک طرف ڈاکٹر نجیب انتظامیہ کی سرپرستی سے سوویت یونین نے ہاتھ کھینچ لیا تھا تو دوسری جانب خود سوویت یونین کے انہدام کا عمل بھی شروع ہو چکا تھا جب کہ اس حوالے سے ایک اور اہم بات ڈاکٹر نجیب کے برعکس ڈاکٹر اشرف غنی کو تمام مغربی طاقتوں کی آشیرباد حاصل ہونا تھا لیکن وہ بریک کے بجائے ایکسیلیٹر پر پائوں دبا کر جس رفتار سے افغانستان سے بھاگے ہیں اس کی توقع شاید خود طالبان اور ان کے سرپرستوںکو بھی نہیں تھی کہ طالبان محض نو دنوں کے اندر اندر بغیر کسی جنگ اور مزاحمت کے پورے افغانستان پر قابض ہو جائیں گے۔ بعض دیگر عوامل کے علاوہ دراصل یہی وہ بڑا سبب ہے جس کی وجہ سے تین ہفتے گزرنے کے باوجود طالبان اب تک نہ توکسی ممکنہ حکومتی ڈھانچے کا اعلان کرسکے ہیں اور نہ ہی انہوں نے مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل دیا ہے لہٰذا جوں جوں اس حوالے سے انتظار کی گھڑیاں طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہیں توں توں اس سے نہ صرف اندرون افغانستان اور علاقائی ممالک کے اضطراب میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ ساری دنیا نے بھی کابل میں اپنے سفارت خانے بند کر تے ہوئے یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا ہے کہ طالبان کے برسراقتدار آنے سے افغانستان کی تباہی نوشتہ دیوار ہے۔ ان شوشوں کے ساتھ ہی طالبان سے ایسے ایسے مطالبات تسلیم کرنے کی فرمائشیں بھی شروع کر دی گئیں ہیں جن پر ماتم کرنے کو جی کرتا ہے۔
ان مطالبات میں اولین مطالبہ جسے اگر مضحکہ خیز قراردیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ طالبان کو مغربی دنیا کی خوشنودی اور دنیا سے اپنا وجود منوانے کے لیے اپنی بیس سالہ قربانیوں اور صعوبتوں پر پانی پھیرتے ہوئے اپنے خون کے پیاسے سیاسی مخالفین کے ساتھ مشترکہ حکومت بنانی چاہیے۔ بظاہر یہ بات بڑی خوبصورت ہے اور اس میں کافی وزن نظر آتا ہے لیکن افغانستان کے حالات سے باخبر لوگ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ افغانستان میں مخلوط حکومت کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکی ہے چاہے وہ خلق اور پرچم دھڑوں کی مشترکہ حکومت ہو اور یا پھر مجاہدین کا عبوری سیٹ اپ ہو اور یا پھر اشرف غنی اور عبد اللہ عبداللہ کی مخلوط حکومت ہو ان تمام تجربات کا کبھی بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ہے ہاں یہ بات درست ہے کہ طالبان کو اپنی صفوں میں شامل معاشرے کے مختلف طبقات اور خاص کر مذہبی اورلسانی اکائیوں کو کچھ نہ کچھ حصہ اپنی حکومت میں ضرور دینا چاہیے۔ طالبان کی بغیر خون خرابے اور مزاحمت کے پورے افغانستان پر قبضہ کوئی معمولی بات نہیں ہے لہٰذا ایسے میں ان سے یہ مطالبہ زمینی حقائق کے قطعاً برعکس ہے کہ انہیں اپنے اقتدار میں دیگر قوتوں خاص کر اپنے سخت ترین حریفوں کو بھی شامل کرنا چاہیے یہ مطالبہ نہ تو مبنی برانصاف ہے اور نہ ہی طاقت کے بل بوتے پر برسراقتدار آنے کے کسی ماڈل سے اس کی مثال ملتی ہے ۔ اگر تو طالبان کو ان کے مخالفین نے کسی معاہدے یا خفیہ ڈیل کے تحت تخت کابل پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا ہے تو پھر تو ان کا یہ مطالبہ قابل فہم ہے لیکن اگر ایسی کوئی بات نہیں ہے تو پھر اس طرح کے لایعنی مطالبات محض وقت کا ضیاع ہے۔
طالبان کے خلاف ان کے ماضی کے تناظر میں دوسرا پروپیگنڈہ یہ کیا جارہا ہے کہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد سخت اسلامی قوانین نافذ کریں گے۔ اس پروپیگنڈے میں جہاں غیرمسلم قوتیں پیش پیش ہیں وہاں بدقسمتی سے ہمارے نام نہاد لبرل مسلمان ان غیرمسلموں سے بھی دو قدم آگے نظر آتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے قوانین کفری طاقتوں کے لیے تو یقینا سخت ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ قوانین ایک اسلامی معاشرے میں کیونکر ’’سخت‘‘ قرار پاسکتے ہیں۔ درحقیقت سخت قوانین کا یہ پروپیگنڈہ محض لوگوں میں خوف وہراس پیدا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح طالبان کے متعلق تیسری غلط فہمی خواتین کے حقوق کے حوالے سے پھیلائی جارہی ہے حالانکہ طالبان ایک نہیں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے خواتین کو تعلیم، صحت اور روزگار کے سارے حقوق حاصل ہوں گے لہٰذا ان واضح یقین دہانیوں اور طالبان کی جانب سے کابل میں خواتین کو کھلے عام احتجاج کی اجازت دینے کے بعد طالبان کے خلاف کیے جانے والے اس یکطرفہ پروپیگنڈے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔