ہمارے ہاں ویسے تو ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو سرے سے نہ تو دو قومی نظریے کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی نظریہ پاکستان جو دوقومی نظریے ہی کی تشریح اور وضاحت ہے کو مانتے ہیں، یہ نام نہاد دانشوروں کا وہ طبقہ ہے جو آج بھی نہ تو پاکستان کے وجود کو دل سے ماننے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی انہیں پاکستان کا اسلامی تشخص ایک آنکھ بھاتا ہے حالانکہ جب اس طبقہ اشرافیہ سے ان کے نقطہ ٔ نظر کے بارے میں ٹھوس دلیل اور منطق مانگی جاتی ہے تو پھر یہ آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے اِدھر اُدھر کھسکنے میں دیر نہیں لگاتے۔ لہٰذا ایسے میں نام نہاد دانشوروں کے اس ٹولے کے پاس جب کہنے کوکچھ نہیں بچتا تو نظریہ پاکستان کے حوالے سے ان کی توپوں کا رخ علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح سے ہوتا ہوا مولانا سید ابواعلیٰ مودودی کی جانب یہ کہتے ہوئے مڑ جاتا ہے کہ وہ نہ صرف دو قومی نظریے کے مخالف تھے بلکہ انہوں نے قیام پاکستان اور تقسیم برصغیر کی بھی مخالفت کی تھی حالانکہ ان الزامات کا حقیقت سے دورکا بھی تعلق نہیں ہے کیونکہ مولانا مودودی جیسے صاحب علم وبصیرت اور نابغہ روزگار شخصیت سے یہ توقع نہیں جاسکتی کہ وہ بغیر کسی مستند علمی دلیل کے محض جذبات یا مخالفت برائے مخالفت کی بنیادپر ایک انتہائی اہم موضوع پر لب کشائی کریں گے جس کا واضح ثبوت مولانا مودودی کا دو قومی نظریے اور تقسیم برصغیر کے حوالے سے انتہائی مدلل اور جامع انداز میں تین تجاویز کی صورت میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنا ہے۔ واضح رہے کہ انہوں نے دو قومی نظریے کے پس منظر میں تقسیم برصغیر کے حوالے سے پہلی تجویز یہ دی تھی کہ ہندوستان کو فیڈریشن آف نیشن بنایا جائے جس میں مسلمانوں اور ہندوئوں کو ان کی آبادی کی بنیاد پر حصہ بقدر جثہ کے اصول کے تحت دو الگ الگ حصوں میں ز یادہ سے زیادہ سیاسی اور معاشی اندرونی خودمختاری دے کر ان دونوں علاقوں پر مشتمل ایک مشترکہ فیڈریشن بنائی جائے۔ انہوں نے اپنی دوسری تجویز میں قرار دیا تھا کہ شمال مغرب میں سارے ہندوستان سے مسلمانوں اور جنوبی ہندوستان میں تمام ہندوئوں اور مشرقی پنجاب میں سکھوں کو 25 سال کے دوران منتقل ہونے کا وقت دیا جائے اور بعدازاں انتقال کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان تینوں علاقوں کو الگ الگ ریاستیں قراردے کر ان کی خود مختاری کو تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے برصغیر کے سیاسی مسائل کا تیسرا حل یہ پیش کیا تھا کہ اکثریتی علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کے ایک علٰیحدہ ملک اور باقی ماندہ ہندوستان کو با ہم کنفیڈریشن بنانی چاہیے جس کی موجودہ حالات میں بہترین مثال متحدہ عرب امارات یا پھر جزائر غرب الہند (ویسٹ انڈیز) کا باہمی ادغام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب جماعت اسلامی کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل قمر الدین احمد خان مولانا مودودی کی یہ تینوں تجاویز قائد اعظم کے پاس لیکر گئے تو انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی والے مسجد بنانا چاہتے ہیں جب کہ میں فوری طور پر مسجد کے لیے ایک قطعہ زمین حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
مولانا مودودی تحریک پاکستان اور دو قومی نظریے کے پس منظر میں لکھی گئی اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’تحریک ِ آزادی ہند اور مسلمان‘‘ میں دوٹوک انداز میں لکھتے ہیں کہ ’’مسلمان اور غلامی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ مسلمان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ غلامی کی فضا میں اپنے دِین کے تقاضوں کو پورا کر سکیں۔ اِسلام پر اسی وقت پوری طرح عمل ہو سکتا ہے جب اِنسان ساری بندشوں کو توڑ کر صرف خدا کا مطیع ہو جائے۔ اِسلام غلبے اور حکمرانی کے لیے آیا ہے، دوسروں کی چاکری اور باطل نظاموں کے تحت جزوی اصلاحات کے لیے نہیں آیا‘‘۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’’اِسلام نے مسلمانوں کا مزاج یہ بنایا ہے کہ طاغوت کی حکومت خواہ وہ کسی رنگ میں ہو، کھل کر اُس کی مخالفت کی جائے، اسے کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کیا جائے، اور خدا کی حاکمیت کو سیاسی حیثیت سے عملاً قائم کرنے اور اُس کے قانون کو زندگی کے ہر شعبے میں جاری و ساری کرنے کی کوشش کی جائے، مسلمانوں کی پوری تاریخ میں ہمیںیہی کشمکش اور کوشش نظر آتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے سامنے یہ مسئلہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں بہت نمایاں ہو کر ابھرا۔ اس ضمن میںسیّد احمد شہید بریلوی نے جہاد کا اعلان کیا اور تحریک مجاہدین نے آخری دم تک طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کیا جبکہ فرائضی تحریک نے مشرقی ہند میں جہاد کا علم بلند کیا۔ 1857 کی جنگ آزادی مسلمانوں ہی کے خون سے سینچی گئی اور اس طرح اپنی تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود مسلمانوں نے اِسلام کے اس مزاج کا بار بار اظہار کیا کہ وہ غیر اللہ کی غلامی کو قبول کر کے طاغوت کے ساتھ کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘‘۔
انہی حالات میں مولانا سید مودودی نے احیائے اِسلام کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ آپؒ نے ایک طرف اسلام کی بنیادی تعلیمات کو عقلی دلائل کے ساتھ پیش کیا اور ذہنوں سے شکوک وشبہات کے ان کانٹوں کو نکالا جو الحاد، بے دینی اور اشتراکیت کی یلغار نے ان کے دلوں میں پیوست کر دیے تھے۔ دوسری جانب آپ نے ان تمدّنی، معاشرتی اور معاشی مسائل کا حل بھی اِسلام کی روشنی میں بتایا جو سوچنے سمجھنے والے طبقات کو پریشان کیے ہوئے تھے۔ بلاشبہ مولانا مودودی کی فکر نے ایک نسل کو متاثر کیا، متحدہ قومیّت کے طلسّم کو چاک کیا اور ’’اسلامی قومیت‘‘ کے احساس کو پختہ کرکے اسے ایک سیاسی نصب العین یعنی قیام پاکستان کی شکل دی۔ حرف آخر یہ کہ ہمیں مولانا مودودی کے دوقومی نظریے سے متعلق خیالات کو بلا تحقیق رد کرنے یا اس سے جان چھڑانے کے بجائے مولانا کے دلائل کا علمی اور تحقیقی بنیادوں پر جائزہ لینا چاہیے جن میں ہمیں کافی گہرائی اور وسعت ملے گی۔