اسلام دین فطرت ہے۔ اسلام کی تعلیمات اور رہنمائی مردو خواتین کے لیے باعث خیر اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہیں۔اسلام ایک متوازن زندگی کا طرز عمل اپنانے کا حکم دیتاہے اور یہ درس ہے کہ نیکی یہ نہیں کہ ”تم اپنے چہر ے مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخرت و ملائکہ، اللہ کی نازل کی ہوئی کتابوں اور پیغمبروں کو دل سے مانے۔“اسلام دکھاوے، نمائش کے اسلوب نہیں مستقل شرم و حیا اور بامقصد و کامیاب زندگی کا راستہ بتاتاہے۔کامیاب وہی ہے جو آخرت میں جنت کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا حق دار بن گیا۔ قرآن و سنت کے احکامات کی پابندی ہی انسانی زندگی کی کامیابی کی کلید ہے۔ انسانی معاشرہ میں مردوعورت کی ذمہ داری الگ الگ ضرورہے لیکن اس کے اعمال سے معاشرہ مثبت یا منفی اعتبار سے اثرات قبول کرتاہے۔ عورتیں تہذیبوں کی عمارت کا بنیادی ستون ہوتی ہیں۔ عورت اللہ کے لطف و جمال اور صفتِ تخلیق کا مظہر ہے۔ شیطانی قوتیں جب بھی کسی معاشرہ و سماج کو بگاڑ کا شکار کرناچاہتی ہیں تو سب سے پہلا وارعورت کی صفت ِحیا پر کرتاہے۔ حضرت آدم ؑ اور بی بی حوا ؑ پر ہی وار چلایا گیا۔ آج تک شیطان کا محبوب اور کاری وار انسانوں کے اعمال پر آزمایا جارہاہے۔حیا، پردہ، حجاب، عفت اور عصمت ایک پورا نظام زندگی ہے جو اسلام عورت کو عطا کرتاہے۔ جو شئے جتنی قیمتی ہے اسے اتناہی پردوں میں مستور رکھا گیاہے۔
اسلامی تہذیب اور اسلامی معاشرت کی علمبردار خواتین نے علمائے کرام کی مشاورت اور رہنمائی میں 4 ستمبر کو عالمی یوم حجاب قرار دیاہے۔ یہ زندگی کی علامت ہے کہ بگڑتی معاشرت، اخلاقی اور تہذیبی گراوٹ کے ماحول میں خواتین اسلام نے
خود آگے بڑھ کر علم بلند کیا ہے۔اسلامی تہذیب، گھروں کی حفاظت، نئی نسل کو تباہی سے بچائے رکھنے کی تمنا کرنے والے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وقت کی اس اہم ضرورت، مقصد، فلسفہ کو جانیں اور اس کے پشتی بان بنیں۔ حجاب عورت کا فخر اور حق ہے یہ حق چھیننے والی قوتوں کے شیطانی ایجنڈا کے سدباب کے لیے سب کو اپنا فرض ادا کرناہے، اپنے حصہ کی شمع جلاناہے۔
مغربی تہذیب، مغربی سرمایہ دارانہ نظام، مغربی تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ میں ترقی ایک حقیقت ہے اور اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ امریکہ اور روس کی سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد یورپ امریکہ کی چھتری تلے آگیا اور یوں یک محوری طاقت نے پوری دنیا میں نیو ورلڈ آرڈر، من پسند تہذیب اور سماج کا ایجنڈا مسلط کرنے کا راستہ اختیار کرلیا لیکن اللہ تعالیٰ ہی مالک، خالق،قادر مطلق ہے، دنیا نے یہ منظر خود دیکھ لیا کہ مغربی استعمار اور امریکہ کا فلسفہ، مذہب بے زاری، بے مقصد علم، حق سے ناآشنا تہذیب اور انسانی ہڈیوں کو نچو ڑ لینے والا اقتصادی نظام پٹ گیا۔ اسلحہ، بارود اور طاقت کے تسلط کے خلاف بغاوت عام ہوگئی ہے۔ اس پس منظر میں اسلامی تعلیمات، مساجد و مدارس، منبر و محراب، اسلامی تہذیب، خاندان کا نظام، مسلم معاشروں کو غلامانہ ذہنیت دینا اور خصوصاً خواتین کو ہدف بنالیا گیا۔ عورت کا حجاب ان کے لیے نفسیاتی ہیجانی کیفیت بن گیاہے۔ یورپی ممالک میں حجاب پر پابندی، باحجاب عورتوں کو پارلیمنٹ سے باہر کرنا، حجاب کی پابند بچیوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنا ظالمانہ روش کی صورت اختیار کر گیالیکن اب یہ قوتیں پسپاہورہی ہیں۔ عورت خود اپنے آپ کو تباہ کرنے سے انکاری ہے اب وہ زمانہ تو گیا جب حجاب کو جبر اور قید کی علامت بنا کر پیش کیا جاتاتھا۔ حجاب نہ زبردستی کرایا جاسکتاہے اور نہ ہی زبردستی حجاب کیا جاسکتاہے۔ یہ ماحول، ترغیبات کے زیر اثر ہوتا ہے۔ بے حجابی اور بے حیائی کی معاشرت نے عورت کو بے وقعت، مارکیٹ کی شمع بنادیا اس لیے عورت نے طاقت سے مسلط مغربی تہذیب سے بغاوت کرد ی ہے۔ اسلام کی تعلیمات بھی پھیل رہی ہیں اور حجاب اب عورت کے لیے وقار، افتخار اور اعتبار کی علامت بن رہاہے۔
مغرب کے ایک دانشور بڑے اضطراب میں مسلم عورت کے حجاب پر افسوس کر رہے تھے تو برطانیہ کے ہی ایک مسلم شہری نے پوچھا کہ کیا ملکہ برطانیہ سب سے ہاتھ ملاتی ہیں اس نے فوراً کہاکہ یہ اس کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ہر ایرے غیرے سے ہاتھ ملائے اسی فرد نے اسے جواب دیا کہ اسلام ہر عورت کو ملکہ کا درجہ دیتاہے اسے ہر ایک سے ملن سے باز رہنے کی تلقین کرتاہے ہر قیمتی، مبارک چیز چھپی اور غلاف میں ہوتی ہے۔عورت کو بھی گھر کی مالکہ اور ملکہ بنایاہے۔ عورت کی تخلیق بڑی مبارک ہے اس لیے اس اس کا حجاب ہی اس کی طاقت ہے۔ حجاب عورت کی تعلیم، ترقی، روزگار،ملازمت اور قومی ترقی میں رکاوٹ نہیں اب باحجاب عورت تعلیم، سماج، بزنس اور ہر میدا ن میں بھر پو رشمولیت کا کردار ادا کر رہی ہے۔عورت حجاب و حیا کی پابند رہے تو پوری آزادی اور تحفظ سے ترقی کی منازل طے کر لیتی ہے۔ بے حجابی عورت کی ترقی، عزت و وقار اور مقام عظمت کے لیے رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔ بے حجابی معاشرہ میں نئے معاشرتی حادثات کا موجب بن گئی ہے جبکہ باحجاب عورت گھر، والدین، شوہر اور اولاد کے لیے باعث عزت بن گئی ہے۔ مسلم ممالک کی مالدار خواتین دنیا کے ان ممالک میں جانا ترجیح بناتی ہیں جہاں ان کا حجاب اور وقار سلامت رہے۔
تہذیبی کشمکش میں مرد و خواتین کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ عورت کو شمع محفل بنا کر دنیا برباد ہوئی ہے۔ عورت کی تعلیم، وراثت، عزت و وقار کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ عورت بھی اسے زندگی کا مشن بنا لے کہ نامحرم اور اجنبی مرد سے ملنے سے اجتناب بھی ہو،ناگزیریت میں وقار، جرأت اور احساس عزت برقرار رہے۔ شرم و حیا کی حفاظت کریں۔ گھروں کو اولادوں کو اسلامی تعلیمات و اخلاق سے وابستہ کریں، گھروں سے باہر اپنی زیب و زینت اور آرائش کو ڈھانپیں اور حجاب کی عادی بنیں۔ مغربی معاشرہ، نام نہاد ترقی، تہذیبوں کو برباد کرنے والی قوتیں ہماری رہنما نہیں۔ مصطفو ی ؐ تہذیب، امہات المومنین ؓ، صحابیات ؓ کی روشن اور مثالی زندگی ہی عورت کے لیے رول ماڈل ہے۔ اسلام مخالف مسلم خواتین کو احساس کمتری میں مبتلا کر کے قید اور جبر کا بے بنیاد تاثر دینا ان کا فریب ہے۔ مغرب زوال پذیر ہے اسلام کی عظمت رفتہ کی جدوجہد آگے بڑھ رہی ہے۔ گھر، خاندان، دینی معاشرہ کی حفاظت کے ساتھ اتحاد امت کی فکر ہمارے لیے چیلنج ہے۔
4 ستمبر یوم حجاب خواتین، طالبات اور نوجوان بیٹیوں کے لیے بہت اہم دن ہے۔ عورت کو کردار، علم اور ذہانت کی بنیاد پر معاشرہ میں مقام دلانا، عورت کے وہ حقوق َہیں جو اسلام نے انہیں دیے ہیں۔ سیکولر نظام نے اس سے وہ حقوق چھین لیے ہیں، خواتین ان حقوق کے حصول کی علمبردار بن جائیں۔ حجاب کو نسوانیت کی فخریہ علامت اور حجاب کو عورت کی پاکیزگی اور آزادی کی تواناعلامت بنادیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ باحجاب خاتون ہیں، حکومت کو خواتین میں حجاب کلچر عام کرنے کی مہم اور ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ ریاست مدینہ کے نظام کے لیے حجاب اور حیا کی علمبردار عورت بنیاد ہے۔