شمع رسالت کا ننھا پروانہ

340

نفاق وہ مرض ہے جسے کفر سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں منافقین کو جہنم کے نچلے ترین حصے میں پھینکے جانے کا تذکرہ ہے۔ مدینہ کے منافقین میں سے ایک منافق کا نام الجلاس بن سوید بن صامت بیان کیا گیا ہے۔ اس نے جس صحابیہ سے شادی کی، وہ بیوہ تھی اور اس کا ایک بیٹا عمیر بن سعدؓ اس کے گھر میں پرورش پا رہا تھا۔ الجلاس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر آپؐ کے بارے میں بہت ہی گستاخانہ گفتگو کی، اس نے کہا یہ شخص اگر اپنے دعووں میں سچا ہو تو خدا کی قسم پھر ہم گدھوں سے بھی بدتر ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ چھوٹا سا بچہ اس بات کو کیا سمجھتا ہوگا مگر عمیر بن سعدؓ کے دل میں ایمان کی روشنی تھی اور وہ بچہ آپؐ کا سچا محب تھا۔ اس نے کہا اے جلاس! تو مجھے بہت محبوب تھا اور میں تیری بے پناہ عزت کرتا تھا مگر خدا کی قسم تم نے جو بات کہی ہے، اس نے میرا دل زخمی کر دیا ہے۔ اگر میں اسے چھپاؤں گا تو ہلاک ہوجاؤں گا اور اگر اسے بیان کردوں گا تو یہ بڑی شرم اور عار والی بات ہے مگر جو کچھ بھی ہو، میں تمھارا راز فاش کردوں گا۔ دُرِّ یتیمؐ کا یہ یتیم امتی واقعی نہایت قیمتی ہیرا تھا۔ جلاس نے اس بچے کو کہا کہ تم میری بات کو سمجھے ہی نہیں ہو مگر اس سعادت مند بچے نے جواب میں کہا کہ میں خوب سمجھتا ہوں، یہ کہہ کر عمیرؓ مجلس سے اٹھ گیا۔ الجلاس بھی فوراً اٹھا اور عمیرؓ سے پہلے آپؐ کی مجلس میں پہنچ گیا۔
عمیرؓ بھی تھوڑی دیر بعد خدمت نبوی میں حاضر ہوگئے۔ مجلس میں ان کا سوتیلا باپ جلاس بھی موجود تھا۔ انھوں نے جب آپؐ کی خدمت میں پورا واقعہ پیش کیا تو الجلاس نے حلف اٹھا کر کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ بزرگ صحابہ نے بھی عمیر سے کہا برخوردار تم بہت چھوٹے ہو تمھیں شاید بات کی سمجھ نہیں آئی۔ اس نے بڑے حزم کے ساتھ کہا خدا کی قسم، جو کچھ ان کانوں نے سنا ہے وہی اس زبان نے بیان کیا ہے مگر بچہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اس کی بات کو زیادہ وزن نہ دیا۔ معصوم بچے کو اس کا بڑا افسوس ہوا اور اس نے دل میں کہا کہ میری سچائی کو اللہ خود بیان کر دے گا۔ سیدنا عمیرؓ بیان کیا کرتے تھے کہ انھیں منافقین کی دل آزار باتوں سے تو دکھ پہنچا ہی تھا، جب ان کی بات اہلِ حق کی مجلس میں بھی نہ مانی گئی تو وہ اور بھی آزردہ ہوگئے اور آنکھوں میں آیت آنسو آگئے۔ سبحان اللہ یہ معصوم آنسو اللہ کو کس قدر پسند آئے کہ وحی ربانی نے آکر ان کے آنسو پونچھے اور ان کی تصدیق فرمائی۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی۔
یہ آیت اس سلسلۂ آیات کا حصہ ہے جن میں منافقین کو طشت از بام کر دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کہی، حالانکہ انھوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے۔ وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انھوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے۔ یہ ان کا سارا غصہ اسی بات پر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا ہے۔ اب اگر یہ اپنی اس روش سے باز آئیں تو انھی کے لیے بہتر ہے، اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت دردناک سزا دے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور زمین میں کوئی نہیں جو ان کا حمایتی اور مددگار ہو‘‘۔ (التوبہ :47) جلاس نے اس کے بعد سچی توبہ کرلی اور بعد کی زندگی نفاق سے پاک ہو کر اسلام کے مخلص پیروکار کی حیثیت سے گزاری۔ (تفسیر ابن کثیر)
دورِ نبوی کے پاکیزہ معاشرے میں نوخیز بچے بھی اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح جانتے تھے اور ان کو بکمال و تمام ادا بھی کرتے تھے۔ سیرتِ نبوی کا مطالعہ اور سیرت صحابہ کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایسے بے شمار ایمان افروز واقعات سامنے آتے ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ اس زندہ ضمیر معاشرے میں بے ضمیروں کے لیے کوئی گنجائش اور رو رعایت نہ تھی۔ اسلامی ریاست اور اس کے سربراہ نبیٔ رحمت کے خلاف جہاں کسی نے خبث باطن کا مظاہرہ کیا وہیں اس کا محاسبہ کرنے کے لیے زندہ ضمیر ابنائے اسلام میدان میں آجاتے تھے۔