شیخ رشید کا کچھ کچھ

381

عمران خان وزارت عظمیٰ کی مسند پر براجمان ہوئے تو قوم نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ عمران خان نے ایسے ایسے سبز باغ دکھائے تھے کہ جہاں خزاں کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مگر جمہوری نظام میں یہ ممکن ہی نہیں عوام اس وقت سکتے کی حالت میں لیٹی ہوئی ہے اور ملک سے ہمدردی رکھنے والوں کو یہ خدشہ کھائے جارہا ہے کہ قوم کبھی بیٹھنے کے قابل بھی ہو سکے گی یا یونہی لیٹی رہے گی۔ خواب دیکھنے والی آنکھوں کی پلکیں نوچ لی گئیں مہنگائی اور بے روز گاری کا اتنا دبائو ڈالا گیا کہ عوام کا دم ناک میں آ رُکا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی تین سالہ کارکردگی نے عوام کو جس طرح تیرہ تین کیا ہے مزید دو برسوں میں کیا کیا ستم ڈھائیں گے؟ عوام کا ناک میں اٹکا ہوا دم کب لبوں پر آتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ دم لبوں پر آجائے اور عوام اس ازیت سے نجات پالیں گے حالات اور واقعات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب بہتری کا اندازہ لگانے کے بجائے حکومت کا قصیدہ پڑھنے والوں کے تخمینوں پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا مگر اب یہ بھی ممکن نہیں رہا اگر غور سے ملکی حالات اور وزیر اعظم عمران خان کے قصیدے پڑھنے والوں کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو جائز طور پر یہ سوچا جاسکتا ہے کہ قصیدہ لکھنے والوں کا ذخیرہ الفاظ ختم ہو چکا ہے اور قصیدہ پڑھنے والوں کی آواز پر سیاسی سندور اپنا اثر کر چکا ہے۔
شنید ہے کہ بعض لوگ اپنے مخالفین کی آواز دبانے اور اسے بے سرا کرنے کے لیے سندور کھلا دیا کرتے ہیں تاکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری، مگر وہ یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ سیاسی بانسری بانس کی محتاج نہیں ہوتی حکومت کی تین سالہ کارکردگی نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے جمہوری اداے تباہ اور ملکی معیشت برباد ہو گئی ہے احتساب کا عمل بے عملی کی نذر ہو چکا ہے۔ بس… رٹو توتوں کی طرح احتساب احتساب کی رٹ لگائی جارہی ہے مگر احتساب کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ اقتدار ایسے لوگوں کو دیا جائے جو عوام کی دنیا ہی نہیں آخرت بھی سنوار سکیں موصوف نے بجا طور پر درست کہا ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکن اور پاکستان کے ہر شہری کی ذمے داری ہے کہ احیائے دین کے لیے جدوجہد کرے اس کے بغیر ایمان کی تکمیل ممکن نہیں اور یہ بات درست ہے کہ سیاست اور مذہب الگ الگ نہیں لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ سیاست کے بغیر ملک نہیں چلایا جاسکتا اور دین کے بغیر مذہب بے معنی ہو جاتا ہے۔ سراج الحق کی اس بات پر حیرت ہے کہ سیاست دان سیدنا موسیٰؑ کی شریعت میں فرعون کا نظام چلانا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی عدالت سمیت ہر ادارے میں قرآن و سنت کا بول بالا چاہتی ہے بعض بڑبولے اسے ناممکن سمجھتے ہیں مگر ہمارا نصب العین دیگر جماعتوں سے مختلف ہے اور یہی اختلاف ہمیں ان سے مختلف کرتا ہے ہمارا مقصد اللہ کے دین کو دنیا پر غالب کرنا ہے اور مخلوق خدا کا تعلق خالق سے برقرار رکھنا ہے اس تعلق کو جوڑے بغیر ہم اِدھر کے رہیں گے نہ اُدھر کے۔ سیاست دان صرف اقتدار پر قابض رہ کر بڑی طاقتوں کی غلامی قبول کر لیتے ہیں اور درآمد ہدایات کے مطابق حکومت چلاتے ہیں المیہ یہی ہے کہ قوم حکمرانوں کی اصلیت اور خصلت کو جانتے ہوئے بھی ان کا ووٹ دیتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے ووٹ کی کیا حیثیت ہے جو عالم و فاضل اور جاہل مطلق کو بھی ایک ہی لائن میں کھڑے ہونے پر مجبور کرتا ہے آنکھوں سے محروم شخص آنکھوں والے شخص کی طرح نہیں ہوتا اس کی سوچ اور فکر دنیا کے دیگر انسانوں سے مختلف ہوتی ہے ایسی جمہوریت کو اندھی طرز حکمرانی کہا جاسکتا ہے۔
شاید اہل دانش و بینش کی یہ رائے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ جس ملک میں عدلیہ اپنے دائرہ اختیار کو پلاٹ پرمٹ اور دیگر مراعات تک محدود کر دے وہ محدودیت کے دائرے کی قیدی بن جاتی ہے اور قیدی بہر حال قیدی ہی ہوتا ہے خواہ وہ اپنے اختیارات کو مقید کرے یا جسمانی طور پر چار دیواری میں قید ہو مگر وطن عزیز کی بدنصیبی یہی ہے کہ یہاں ذمے داری کو مرضی کے مطابق ڈھال لیا جاتا ہے اور المیہ یہ بھی ہے کہ ایسے لوگ ذمے داری نبھاتے ہیں نہ تنخواہ کا حق ادا کرتے ہیں اگر تنخواہ کا حق ادا کرنے کی عادت کو اپنا لیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بہت سی سہولتیں اور مراعات عوام کا مقدر بن سکتی ہیں۔ مگر مقدر کے سکندروں کو یہ بات منظور ہی نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عوام کو مراعات مل گئیں اور سہولتیں نصیب ہو گئیں تو ان کے نصیب سو جائیں گے اگر حالات اور واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے اور دیانتداری سے اس کا تجزیہ کیا جائے تو یہ ماننا ہی پڑے گا کہ پاکستان جسے مملکت خداداد کہا جاتا ہے خدا کے سہارے ہی چل رہی ہے بقول انور شعور
ملی تھی زندگی خود بخود
لہٰذا گزر رہی ہے خود بخود
بس، اب دل کے ہاتھوں دل دو دماغ
نکل جائے گی کجی خودبخود
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس آفاقی اصول کا کیا کیا جائے کہ جو کجی خود بخود آئے وہ خودبخود نہیں نکلتی اسے نکالنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
من حیث القوم ہم برصغیر کی کجی نکالتے نکالتے اتنے کج ادا ہوئے ہیں کہ کوئی بھی کجی ہو اسے دیکھ کر ہماری گردنیں کجی کی ایک مکمل مثال بن جاتی ہیں۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہماری گردنیں کب تک کج رہیں گی۔