جوہری مذاکرات کی بحالی کیلیے جرمنی کا ایران پر زور

142

 

برلن (انٹرنیشنل ڈیسک) ایران میں صدر کے انتخاب کے بعد سے جوہری مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ جرمن وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایران پر اس بات کے لیے سخت زور دیتی ہے کہ وہ ان مذاکرات کو دوبارہ شروع کرے، جس کا مقصد جوہری معاہدے کو بحال کرنا ہے۔ وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم اس کے لیے وقت کا دروازہ ہمیشہ نہیں کھلا رہے گا۔ فرانس کی وزارت خارجہ نے بھی اسی طرح کا ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں ایران سے جوہری امور پر مذاکرات شروع کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ 2015ء میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین، روس اور یورپی یونین نے ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنا اور اس کے بدلے میں اس پر عائد معاشی پابندیوں میں نرمی کرنا تھا۔ یہ معاہدہ مشترکہ جامع منصوبے کے نام سے بھی معروف ہے، جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے باز رکھنا تھا۔ مشترکہ جامع منصوبے میں ایران میں یورینیم کی افزدگی کو محدود کرنے پر خاصا زور دیا گیا تھا۔ تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو اس معاہدے سے 2018ء میں یکطرفہ طور پر نکال لیا تھا اور ایران پردوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس کے رد عمل میں ایران نے بھی معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کا اعلان کیا۔ اپریل میں بائیڈن انتظامیہ نے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بات چیت کا سلسلہ شروع کیا تھا، ، تاہم ایران میں نئے صدر ابراہیم رئیسی کی آمد کے بعد سے ہی یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ ایران کے نئے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ دوسرے فریقوں کو اس بات سے اچھی طرح سے واقف ہونا چاہیے کہ نئی انتظامیہ کو اپنی ذمے داریاں اچھی طرح سنبھالنے میں چند ماہ کا وقت لگتا ہے۔