گزشتہ چھبیس سال سے عدالت عظمیٰ میں مقدمات کی سماعت اور رپورٹنگ کے دوران بے شمار مشاہدات ایسے ہیں جنہیں قلم بند نہیں کیا جاسکتا، جسٹس سجاد علی شاہ کو کام سے روک دینے کا کوئٹہ بنچ کا فیصلہ اور اس فیصلے کے بعد کا منظر آج بھی ذہن میں تازہ ہے، اس سے پہلے عدالت عظمیٰ جونیجو حکومت کی برطرفی کے خلاف دائر آئینی درخواست پر بھی فیصلہ سنا چکی تھی اگر سجاد علی شاہ کو کام سے روک دینے کا فیصلہ، جونیجو حکومت کی برطرفی کے خلاف درخواستوں پر فیصلے سے کسی بھی طرح کا کوئی باہمی تعلق نہیں رکھتا تاہم ملکی عدلیہ میں ایسے بے شمار فیصلے ہیں جنہیں سیاسی فیصلے کہا جاسکتا ہے، حال ہی میں عدالت عظمیٰ میںصحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق ایک درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ’بطور جج ہم سیاست نہیں کر سکتے اسی طرح صحافیوں کا کام بھی صحافت کرنا ہے سیاست کرنا نہیں، محترم جناب عزت مآب جج صاحب کے ریمارکس بہت اعلیٰ ہیں ایسا ہی ہونا چاہیے کہ صحافی صحافت کریں سیاست نہ کریں۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ ’صحافت اور آزادی اظہار رائے تہذیب کے دائرے میں ہونا چاہیے، یہ اس سے عمدہ ریمارکس ہیں، لیکن کیا کیجیے ہماری تاریخ جسٹس منیر کے فیصلے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کا فیصلہ دیا اور بعد میں یہی روایت ضیاء الحق دور میں رہی، جسٹس انوار الحق، جسٹس حلیم، جسٹس افضل ظلہ، جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس انوار الحق جیسے جید جج صاحبان بھی اپنے وقت میں فیصلے سنا کر گئے ہیں، جسٹس ثاقب نثار کی تو بات ہی نہ کی جائے کہ وقت ضائع ہوگا، آج ہمیں کوئی ملک کے کسی سینئر قانون دان سے رہنمائی مل سکتی ہے کہ ان کے فیصلوں کے گرد کتنی سیاست کی آکاس بیل تھی؟ ماضی کو ذرا چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ان درخواستوں کی سماعت کے دوران اہم ریمارکس دیے گئے ہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’آئین پاکستان میڈیا کو آزادی فراہم کرتا ہے، آزادی صحافت کا ذکر تو بھارتی اور امریکی آئین میں بھی نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ’کوئی قانون آرٹیکل 19 کے متضاد ہوا تو کالعدم قرار دے دیں گے‘۔ جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ ’کمرہ عدالت خالی بھی ہوا تو سماعت کریں گے، اس موقع پر جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے: ’عدالت کو خود کو مطمئن کرنا ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی، میڈیا قوم کا ضمیر اور آواز ہے، صحافیوں کی جس درخواست کی سماعت ہورہی ہے، عبدالقیوم صدیقی بھی اس میں فریق ہیں، ان کے والد رشید صدیقی ضیاء الحق دور میں صحافیوں کی تنظیم کے بڑے اعلیٰ سطح کے لیڈر تھے، بلکہ انہی کے نام پر صحافیوں کا گروپ کام کرتا تھا، رشید صدیقی گروپ ان دنوں بہت مقبول تھا، انہوں نے صحافت بھی کی اور سیاست بھی، ان کی صحافت کیسی تھی یہ تو ہمارے ہاکی کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی اختر رسول ہی بتاسکتے ہیں کہ ان کی صحافت نے کیسے کیسے کھلاڑی تلاش کیے اور ملک کے کھیلوں کے میدان میں اتارے، رہ گئی بات سیاست کی تو اس بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ رات گئی بات گئی۔
پاکستان کے آئین میں شہری آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہے تاہم ان آزادیوں کو قانون کے تابع بھی رکھا گیا ہے لیکن آج جو کچھ ہورہا ہے، ایسی سختی تو ماضی میں بھی نہیں تھی، ماضی میں پریس نے سینسر شپ دیکھی ہے اور بھگتی ہے اور اس کے علاوہ سائلنٹ سینسر شپ بھی دیکھی ہے کہ اخبارات پابند بنائے گئے کہ کوئی جگہ خالی نہیں چھوڑی جائے کہ مبادہ لگے کہ سینسر شپ کی نذر ہوئی ہے… ان دنوں پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی پر بحث ہورہی ہے، ذرائع ابلاغ سے متعلق ملک گیر تنظیموں نے اس پر اپنی رائے دی ہے، مگرحکومت چاہتی ہے کہ قانون سازی ہو، دستور پاکستان کے مطابق ملک کی اعلیٰ ترین عدالت، عدالت عظمیٰ آئین کی محافظ عدالت ہے بلکہ آئین اور قانون کی تشریح کا حق اور اختیار اسی کو حاصل ہے، لیکن کچھ معاملات ایسے ہیں کہ ملک کے وکلا کی تنظیم تحفظات ظاہر کر رہی ہے، ان کے ہاںکبھی کبھی احتجاج کی چنگاری بھی پھوٹ پڑتی ہے، ایسا کیوں ہے؟ وکلا کا موقف ہے کہ وہ تقرریاں میرٹ پر چاہتے ہیں، وہ عدالتوں سے انصاف چاہتے ہیں سیاست نہیں، ہمیں تو سو فی صد یقین ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ قانون کے مطابق فیصلے کر رہی ہے، یہ بات بھی حوصلہ افزاء ہے کہ جسٹس اعجاز الحسن نے جو ریمارکس دیے کہ ’صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت عظمیٰ مداخلت کرے گی جبکہ تنخواہوں اور چھانٹیوں کے معاملے پر بھی عدالت صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے، امکان یہی نظر آرہا ہے کہ عدلیہ منصفانہ فیصلہ جاری کرے گی۔