25۔ اگست کو پاکستان تحریک نے اپنی حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر جس طرح کی تقریبات کا اہتمام کیا وہ ڈھٹائی اور ملمع کاری کی عمدہ ترین مثالوں میں سے ایک ہے۔ ویسے ان تین سال کے نامہ اعمال میں سوائے روسیاہی کے شاید ہی کچھ ہو لیکن آپ چشم تصور سے ذرا اس بات کا اندازہ کریں کہ واقعتاً اگر اس حکومت کے ہاتھوں کوئی کارنامہ انجام پایا ہوتا تو ہمارے ملک کی کیا کیفیت ہوتی۔ پاکستانی تاریخ کے بد ترین تین سال کہ جن میں مہنگائی، بے روزگاری اور بد انتظامی اپنی انتہائوں کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے، کو کس طرح تاریخ ساز بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں ہے جو موجودہ حکومت نے ڈھنگ سے سرانجام دیا ہو۔ پنجاب جو آبادی کے لحاظ سے آدھا پاکستان ہے وہاں پر حالت یہ ہے کہ کم و بیش ہر تین ماہ بعد ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور ڈی پی اور آر پی او تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ پنجاب کے چھتیس اضلاع میں تقریباً کم و بیش ایک ہی صورتحال ہے۔ ڈیرہ غازی خان جو وزیر اعلیٰ کا اپنا علاقہ ہے کا کمشنر ساتویں مرتبہ تبدیل ہوچکا ہے۔ یعنی اوسطاً چھ ماہ سے زائد کسی آفیسر کو ٹکنے نہیں دیا جاتا جس کا نتیجہ امن و امان کی تباہ شدہ صورتحال آپ کے سامنے ہے اور محکمانہ کارکردگی کو اگر آپ جانچنا چاہیں تو مینار پاکستان کے اندوہناک واقعہ سے آپ اس کی سنگینی کا اندازہ کرسکتے ہیںکہ جہاں پر پنجاب پولیس واقعہ کے چار گھنٹے بعد پہنچی، امن و امان کی ابتر صورتحال اور وزیرا علیٰ پنجاب کی تعریفوں کے پل کے درمیان کوئی ربط نظر نہیں آتا لیکن اس کے باوجود اپنے جھوٹ پر اصرار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہم پستی کے کس درجہ پر ہیں۔ بس ہیجان پیدا کیے رکھو تاکہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے اور اس کا بہترین مظاہرہ بذات خود عمران خان صاحب کررہے ہیں۔ معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم برداشت، گالم گلوچ، بازاری زبان جس کے بانی اور سرخیل خود جناب عمران خان ہیں اور اب ان کے ساتھ ان تین سال میں پوری ایک نسل تیار ہوچکی ہے۔ جن کے ذمے صرف یہی کام ہے کہ بس ہیجان پیدا کیے رکھو کیونکہ تیسری دنیا کے لوگوں کے لیے اس بہتر کوئی اور نسخہ اتنا کارگر نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم وعدوں کے مطابق تین سالہ کارکردگی کا جائزہ لیں تو بہت سارے احباب ناراض ہوں گے۔ اس لیے ہم حکومت میں آنے سے پہلے والے وعدے وعید پر بات نہیں کرتے تاکہ مزاج یار پر گراں نہ گزرے لیکن پشاور میٹرو جو 28ارب روپے سے تیار ہونا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے انتہائی جانفشانی اور دن رات کی محنت کے بعد اور انتہائی ایمانداری کے ساتھ 130ارب روپے لگانے کے بعد بھی ابھی تک نامکمل ہے اور دنیا کے سات عجوبوں کے بعد یقینا آٹھواں عجوبہ ہے جو کہ حسن کارکردگی، محنت، امانت اور دیانت کی اعلیٰ مثال قائم کیے ہوئے ہے اور ویسے آپس کی بات صرف پشاور میٹرو بس پروجیکٹ ہی کافی ہے ان کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے اور اگر کسی ایسے معاشرے میں یہ ہوا ہوتا کہ جہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا تو یقینا کچھ لوگوں کی گردنوں کے گرد رسہ تنگ ہوچکا ہوتا لیکن چونکہ یہ پاک سرزمین ہے لہٰذا آپ جو بھی کہیں اور جو بھی کریں وہ مستند بھی ہے اور قابل تعریف بھی۔
بلین ٹری پروجیکٹ کہ جس کو ہمارے خانان خان، خان عمران خان گنواتے نہیں تھکتے۔ عدالت عظمیٰ کہہ چکی ہے کہ اس میں
بہت بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی ہے اور موجودہ حکومت کو چاہیے کہ یا تو عدالت عظمیٰ کو چیلنج کرے وگرنہ فارن فنڈنگ کیس کی طرح ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قوم کے ساتھ بہت بڑے پیمانے پر کھلواڑ کیا گیا ہے۔ رنگ روڈ منصوبہ جو عین اپنے شباب پر اپنی موت آپ مرگیا لیکن پیچھے رہ جانیوالی کہانیوں پر اگر دنیا کی مختلف جامعات میں اس پر ڈاکٹریٹ کے مقالہ جات کو دعوت دی جائے تو سیکڑوں ریسرچ آرٹیکل ہیں کہ جو دعوت نظارہ دے رہے ہیں اور اس بات کا ثبوت ہیں کہ لوگ اپنی صلاحیتوں میں کس درجے پر ہیں اور ملک کے ساتھ ان کی وفاداری کا کیا عالم ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق مراد سعید نے پچھلے دنوں غیرت میں آکر 200ارب دنیا کے منہ پر مارنے کے بجائے سات ارب اپنے ہی منہ پر دے مارا۔ ان کی اس جرأت اور وفاداری پر یقینا ’’تمغہ امتیاز‘‘ تو بنتا ہے۔ خیبر پختون خوا حکومت کورونا فنڈ کے تین ارب روپے ایک ہی سانس میں ہڑپ کرگئی اور امانت و دیانت دار بھی ٹھیری۔ مرکزی حکومت ڈبلیو ایچ او اور ورلڈ بینک کی طرف سے دی گئی 300ملین ڈالرز کی امداد کے ساتھ ہاتھ کرکے بھی صادق و امین ٹھیری۔ بنی گالہ کو جس طرح ریگولرائز کیا گیا اور جس برق رفتاری سے ہمارے محکموں نے اس پر کام کیا اور آناً فاناً حرام کو حلال کردیا گیا۔ یہ ہماری اس ’’نو منتخب حکومت‘‘ کے تین سال کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ یاد رہے کہ یہ مکمل فلم تو کیا ٹریلر بھی نہیں ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ اپنے دوست کے ایک پرائیویٹ ادارے ’’کے الیکٹرک‘‘ کو 26ارب روپے کی ایڈوانس سبسڈی دے کر جس طرح پاکستان کا نام روشن اور بلند کیا گیا ہے وہ بھی حسن کارکردگی کا ایک درخشاں باب ہے۔ جبکہ ’’کے الیکٹرک‘‘ کی کارکردگی اظہر من الشمس ہے۔ آج کل ہمارے وزیر اعظم اور دیگر حضرات کے چہروں پر آپ کو ایک خاص قسم کی مسکراہٹ نظر آئے گی۔ بھلا کیوں؟ کیونکہ حکومتی ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف دو ارب 77کروڑ ڈالر کا قرضہ بینک دولت پاکستان کو جلد منتقل کردے گا یا کردیا گیا ہے اور جس کے نتیجے میں زر مبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائیںگے۔ بقول غالب
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہمارے فاقہ مستی ایک دن!
وہ جو کشکول گدائی کو توڑے آئے تھے۔ وہ اس شراب کے اتنے رسیا ہوگئے کہ آج آئی ایم ایف کے اشاروں پر غریبوں کی زندگی کے چراغ گل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آج سے تین سال قبل 12سو روپے کا ایل پی جی، 28سو روپے کا ہوچکا ہے۔ 5سو روپے سیمنٹ کی بوری 7سو روپے کی ہوچکی ہے۔ 35روپے کلو والا آٹا 80روپے کلو ہوچکا ہے۔ 55روپے والی چینی 110روپے کلو ہوچکی ہے۔ ادویات کی قیمتیں 6سو فی صد بڑھ چکی ہیں۔ 65روپے لیٹر والا پٹرول 120روپے لیٹر ہوچکا ہے۔ 145روپے کلو والا گھی 330روپے کلو ہوچکا۔ بجلی 8روپے یونٹ سے 22روپے یونٹ ہوچکی۔ 5کلو چاول 4سو روپے سے بڑھ کر 800روپے کا ہوچکا ہے۔ دال 170روپے کلو سے بڑھ کر 280روپے کلو ہوچکی ہے۔ شرح سود مدینہ کی ریاست میں ختم ہونے کے بجائے 13فی صد کردی گئی۔ یہ ہے حسن کارکردگی کی ایک ہلکی سی جھلک۔ وہ جو کہتے تھے کہ پٹرول یا ڈالر مہنگا تو سمجھ جائو کہ کرپٹ ٹولہ بر سر اقتدار ہے، آج آسمانوں کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی مہنگائی انہی کا منہ چڑارہی ہے۔ اپنے کیے ہوئے ایک ایک وعدے سے پھرنا آج ان کا وتیرہ بن چکا ہے۔
جمہوری پارلیمانی نظام میں حزب اقتدار کے بعد اگر عوام داد رسی کے لیے کسی کی طرف امید بھری نظر وں سے دیکھتی ہے تو وہ حزب اختلاف اور اس سے جڑی جماعتیں ہیں۔ جن میں مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ گزشتہ تین سال میں ان تمام پارٹیوں نے جس بے بصیرتی اور نا اہلی کا ثبوت دیا ہے اس نے ان تمام پارٹیوں اور ان کی قیادت کے تاثر کو بہت ہی برے طریقے سے متاثر کیا ہے، اگر چہ چور دروازے ڈھونڈنا، رات کی تاریکی کا سہارا لینا اور بوٹ پالش کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا ان کے ماتھے کا جھومر ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی تاریخ نہیں ہے بلکہ اب تو بہت سارے رازوں سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ ہمارے ایک دوست کالم نویس خورشید ندیم نواز شریف کی تقریر سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے کالم کا عنوان ہی یہ بنا ڈالا کہ ’’تقریر سے پہلے اور تقریر کے بعد کا نواز شریف‘‘ اور انہوں نے فقط ایک ہی کالم پر اکتفا نہ کیا بلکہ انہوں نے پوری ایک سیریز لکھ ڈالی کہ کس طرح یہ بیانیہ پاکستان کی تقدیر کو بدل ڈالے گا۔ لیکن کون جانتا تھا کہ یہ سارا پریشر تو فقط ایک اچھی Bargianing کے لیے کیا جارہا تھا اور جب وہ نہ ہوپائی تو ہم نے پرانی تنخواہ پر بغیر سالانہ اضافے کے لیے اپنے کام کو جاری رکھا۔ زرداری صاحب کی سیاست اپنے صوبے کی حکومت کے گرد گھومتی رہی اور سودو زیاں سمیت وہ اس کو لے کر آگے بڑھتے رہے اور انہوں نے عالمی اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اداروں کو یہ باور کرنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے کہ مائی باپ جس تنخواہ پر آپ موجودہ حکومت کو چلارہے ہیں ہم تو اس سے بہت کم درجے پر بھی کام چلانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن تاحال کہیں سے کوئی گرین سگنل نہیں مل سکا۔ البتہ بات چیت جاری رکھنے پر دونوں پارٹیوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی کارکردگی بحیثیت مجموعی پوری قوم کے سامنے سوالیہ نشان ہے۔ جس طرح پارلیمان کے تقدس کو پامال کیا جاتا رہا وہ اپنی مثال آپ ہے اور ہمارے سیاستدانوں کی بلوغت اور ہمارے سیاسی نظام پرسوالیہ نشان بھی۔ جس طریقے سے اور جو زبان پارلیمان کے اندر استعمال کی جاتی رہی بالخصوص حکومت وقت اور اس کے وزراء کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ وہ تمام حالات ہیں کہ جن میں موجودہ حکومت نے پورے تزک و احتشام کے ساتھ اپنے جھوٹ بولنے کے سفر کو جاری رکھا اور چونکہ اب جھوٹ بولنے میں تین سالہ تجربہ بھی ہے، اسی لیے اب ضمیر بھی ملامت نہیں کرتا کیونکہ ضمیر تو کب کا ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کو گروی رکھا جاچکا ہے۔ البتہ ایک بات جس کی داد دیے بغیر نہیں رہا جاسکتا، وہ مسلسل جھوٹ بولنا، تواتر کے ساتھ روزانہ ٹاک شوز میں بیٹھ کر اپنے لیڈر کے گناہوں کا ملبہ اپنے سر لینا ہمارے سیاسی ورکرز کا وتیرہ بن چکا ہے۔ چاہے وہ شاہد خاقان عباسی ہوں یا اسد عمر، چاہے وہ شاہ محمود قریشی ہو یا میاں جاوید لطیف یعنی جتنا تم اپنے لیڈر کو بڑا ثابت کروگے تو تم اتنے ہی وفادار ثابت ہوگے اور اس وفاداری کا صلہ وقت آنے پر دیا جائے گا۔ رائیگاں نہیں جائے گا۔ کھوکھلا اور گندہ نظام، بد امنی، رشوت کا گرم بازار، حدو ں کو چھوتی ہوئی لاقانونیت کہ جس کے شر سے نہ زینب محفوظ ہے اور نہ ہی فاطمہ، پارلیمان سے منظور ہوتا ہوا Domestic Violence Bill اور Single National Curriculum ہیں۔ عمران خان کو بطور ریفارمر پیش کرنا اور تحریک انصاف کی حکومت کے پانچ بڑے منصوبوں کے نام لکھیں کے سوال کہ جس کا جواب آج کے بقراطوں کے پاس بھی نہیں ہے ہمارا منہ چڑارہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پوری قوم اور اپوزیشن اس دن کو ’’یو م سیاہ‘‘ کے طور پر مناتی تاکہ ان کے کالے کرتوتوں کو ملک و قوم کے سامنے پیش کیا جاتا وگرنہ اقتدار کے خون کا مزہ ان کے منہ کو لگ چکا ہے اور ابھی سے ان کے منہ سے اگلے اقتدار کے لیے رالیں ٹپک رہی ہیں۔ ہوشیار رہنا، جاگتے رہنا اور جگاتے رہنا اور ہاں آخری بات! حکومتی وزراء کے بیانات سے تو یہ لگ رہا ہے کہ افغانستان کی جنگ اصل میں تحریک انصاف ہی نے لڑی ہے اور ملا عمر کی جگہ یہ سارا کریڈٹ عمران خان کو ہی جاتا ہے حالانکہ اس وقت کی ساری تحریک انصاف مشرف کے ساتھ کھڑی تھی اور ان سب کے ہاتھ اور پائوں افغانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ لیکن آخر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کو طالبان کی فتح پر کیوں چپ لگ گئی؟ کوئی ہے جو پتا کرکے بتاسکے کہ حضور آپ کے ہاں سوگ کیوں طاری ہے؟ اگر ہوسکے تو پتا کرکے بتائیے گا!!!