یکساں قومی نصاب

831

پاکستانیوں کی اکثریت کو ویسے تو زندگی کے تمام شعبوں میں یکساں پریشانیوں اور تکالیف کا سامنا رہتا ہے مثلاً غربت، بے روزگاری، ناانصافی، فرسودہ نظام تعلیم اور ناقص معیار زندگی دراصل وہ دیرینہ مسائل ہیں جن سے پاکستان کی اکثر آبادی کو روزانہ کی بنیاد پر واسطہ پڑتا ہے البتہ ہمارے ہاں ایک طبقہ اشرافیہ ایسا بھی ہے جن کا رہن سہن، آمدن، اخراجات، لائف اسٹائل اور معیار زندگی ملک کی غالب اکثریت کے مقابلے میں یکسر مختلف ہی نہیں بلکہ ہزار گنا بہتر بھی ہے۔ اس سماجی تفریق کا ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے مختلف مواقع پر مشاہدہ کرتے رہتے ہیں جس سے معاشرے میں اگر ایک طرف امیر وغریب کے درمیان موجود معاشی وسماجی تفاوت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب اس صورتحال کے نتیجے میں لاتعلقی، بددلی، غصہ اور مایوسی جیسے عوامل فرسٹریشن اور ڈیپریشن کے مختلف واقعات اور مظاہر کی صورت میں بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اس سماجی تفریق اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے منفی اثرات کی نمایاں مثال ہمارے ہاں پچھلی سات دہائیوں سے رائج طبقاتی نظام تعلیم اور فرسودہ نصاب ہے جس کی جانب حقیقی معنوں میں گزشتہ ستر سال کے دوران کسی بھی حکومت اور حکمران نے توجہ نہیں دی جس کا خمیازہ پوری قوم کئی دیگر پیچیدہ مسائل کے علاوہ سماجی وطبقاتی تقسیم کی صورت میں بھگت رہی ہے۔
البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے انتخابی نعرے دو نہیں ایک پاکستان کی جانب عملی قدم اٹھاتے ہوئے تاریخ میں پہلی دفعہ جماعت ششم سے انٹر میڈیٹ تک چاروں صوبوں میں یکساں قومی نصاب رائج کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت پورے ملک میں پرائمری سے لے کر انٹرمیڈیٹ تک اب چترال سے گوادر تک تمام بچے ایک جیسا نصاب پڑھیں گے۔ اس نظام کے نفاذ کا مقصد امیر غریب کا فرق مٹا کر پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوںکو ایک جیسی تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے۔ یکساں تعلیمی نظام کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اب پرائیویٹ اسکول میں پڑھنے والا امیر کا بچہ اور سرکاری اسکول میں پڑھنے والا غریب کا بچہ یکساں نصاب کے تحت ایک کتاب پڑھے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کے بھاری فیسیں لینے والے پرائیویٹ اسکول بچوں کو نسبتاً بہتر سہولتیں دیتے ہیں۔ ان اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو ان کی تعداد کے تناسب سے مناسب کلاس روم، بیٹھنے کے لیے کرسی، واش روم ، گرمی میں پنکھے اور ٹھنڈے پانی کی سہولت میسر ہوتی ہے جب کہ دوسری جانب غریب کا بچہ اگرچہ سرکاری اسکولوں میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھتا ہے، اکثر اوقات اسے واش روم، پانی اور پنکھے کی سہولت بھی میسر نہیں ہوتی مگر یکساں نصاب کے نفاذ سے یہ امید پیدا ہوچلی ہے کہ اب اس کے ہاتھ میں بھی وہی کتاب ہوگی جو امیر کے بچے کے پاس ہوگی لہٰذا اس یکسانیت سے سہولتوں کی تھوڑی بہت تفریق کے باوجود جہاں دونوں طبقات کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع دستیاب ہوں گے وہاں اس سے غریب طبقات کی احساس محرومی کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔
اسی طرح یکساں نصاب کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے قومی ہم آہنگی پروان چڑھے گی۔ ایک جیسی تعلیم حاصل کرنے سے ایک جیسی سوچ پیدا ہوگی۔ یکساں نصاب سے بلوچستان کے ساحلوں، گلگت بلتستان کی برف پوش چوٹیوں، سندھ کے ریگزاروں، پنجاب کے میدانوں اور خیبر پختون خوا کی وادیوں میں پڑھنے والے بچوں کی نہ صرف سوچ ہم آہنگ ہوگی بلکہ ان کے درمیان قومی یگانگت اور ملی جذبات بھی فروغ پائیں گے۔
یکساں تعلیمی نصاب ایک پاکستان کی طرف یقینا ایک بڑا قدم ہے لیکن ان اصلاحات کو صرف کتاب کی یکسانیت تک ہرگز محدود نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ اس فیصلے سے اسکولوں میں کتاب تو ایک جیسی ہوجائے گی لیکن ہمیں ان تلخ حقائق کو بھی نظر اندا زنہیں کرنا چاہیے کہ جہاں سرکاری اسکولوں کے اساتذہ اس کتاب کو پڑھانے کی استعداد نہیں رکھتے وہاں سرکاری اور نجی اسکولوں کی عمومی اور درس وتدریس سے متعلق سہولتوں میں پایا جانے والا واضح فرق بھی یکساں نصاب کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ یہاں ہمیں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ نظام تعلیم میں اصلاحات کے نام پر اس طرح کی یکسانیت کے دعوے اور تجربات بعض کاسمیٹکس اقدامات مثلاً یونیفارم کی یکسانیت اور انگریزی طریقہ تدریس کا بلا تفریق تمام اداروں میں نفاذکی شکل میں پہلے بھی کیے جاتے رہے ہیں لیکن اس کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔
واضح رہے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی یکساں نظام تعلیم کے نفاذ کے جو وعدے کیے تھے ان پر بھی اصلاحات کے دوران اس طرح عمل درآمد نہیں ہوا جیسے کہ توقع کی جارہی تھی لہٰذا اس وقت بھی اور اب ایک بار پھر یکساں نصاب کے نفاذ کے موقع پر بھی بعض اداروں کو ان اصلاحات سے یکطرفہ طور پر چھوٹ دی گئی ہے جس کی نمایاں مثال کچھ بڑے اسکولوں کو کیمبرج کا کورس جاری رکھنے کی اجازت دینا ہے۔ یہ وہ اسکول ہیں جوطبقہ اشرافیہ کے بچوں کے لیے مخصوص ہیں جہاں عام لوگ تو کجا متوسط طبقے کے افراد بھی اپنے بچوں کو داخل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ حال ہی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں مقابلے کا امتحان زیادہ تر وہ طلبہ پاس کرتے ہیں جونہ صرف کیمبرج کا کورس پڑھ کر آئے ہوتے ہیں بلکہ جو انگریزی میں بھی طاق ہوتے ہیں لہٰذا سوال یہ ہے کہ اس طبقاتی نظام کوجوں کا توں برقرار رکھنے کی صورت میں کیا یکساں نصاب کے نفاذ کا انقلابی قدم اٹھانے کے فیصلے سے وہ ممکنہ دور رس نتائج حاصل ہو سکیں گے جن کی پوری قوم کو بڑے پیمانے پر امید دلائی جا رہی ہے۔