کراچی (رپورٹ خالد مخدومی ) پانی میں موجود مضر صحت دھاتوں کی وجہ سے مختلف اقسام کے کینسر ، پیدائشی نقائص، ذیابیطس اور دیگر امراض پیدا ہوسکتے ہیں ، پانی میں موجود خرد حیاتیاتی آلودگی ہیضے ، ڈائریا، پیچش، ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ وغیرہ جیسی بیماریوں کی اہم ترین وجہ ہے، تقریباً 80 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کی وجہ سے جنم لیتی ہیں،صاف پانی صحت مند زندگی کی ضمانت ہے، شہروں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کی صرف 8 فیصد مقدار اور صنعتی آلودہ پانی کی محض ایک فیصد مقدار کو ہی ٹریٹمنٹ کے عمل سے گزارا جاتا ہے ،کراچی میں پینے کے پانی میں انسانی فضلہ ملا ہوتا ہے ۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر شاہد عقیل ، ڈاکٹر عظمت اللہ شریف ، ڈاکٹر سلیم انور اور فارمسٹ شہاب ہاشمی نے جسارت کے اس سوال کہ آ لودہ پانی انسانی صحت کے لیے کتنا مضر ہے؟آغا خان کے ڈاکٹر سرجن سید شاہد عقیل نے کہاکہ پانی میں موجود خرد حیاتیاتی (microbiological) آلودگی ہیضے ، ڈائریا، پیچش، ہپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈوغیرہ جیسی بیماریوں کی اہم ترین وجہ ہے۔پانی میں موجود مضر صحت دھاتوں کی وجہ سے مختلف اقسام کی بیماریاں مثلاً ذیابیطس، جلدی امراض، گردے، دل کے امراض، بلند فشار خون، پیدائشی نقائص اور کینسر بھی ہوسکتا ہے،ملک کے صرف 15فیصد شہری اور 18فیصد دیہی علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت میسر ہے۔ توجہ طلب بات ہے کہ یہ آبِ حیات زہر میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے ،حکومت کو یہ سنگین مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔غذائی ماہر
ڈاکٹر سلیم انور نے اپنے جواب میں کہا کہ صاف پانی صحت مند زندگی کی ضمانت ہے ، بد قسمتی سے پاکستان میں پینے کے لیے دستیاب پانی صحت کے لیے مضر ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ملک میں موجود پینے کے پانی کا نظام بہت بوسیدہ اورآلودہ ہو چکا ۔ کثیر تعداد میں زنگ آلود پائپ لائن کی وجہ سے بیکٹیریا اور دوسرے جراثیم آسانی کے ساتھ اس پینے کے پانی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پانی کے اسٹوریج کی صفائی پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 80 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کی وجہ سے جنم لیتی ہیں اور اس میں 40 فیصد بچوں کی اموات جن کی عمریں 5سال سے کم ہیں وہ بھی آ لودہ پانی کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھاکہ دیہات میں ندی نالوں‘ کنوؤں اور جوہڑوں کے پانی میں کسی نہ کسی طرح جانوروں کا فضلہ اور زمینی غلاظت شامل ہو جاتی ہے۔ اس گندے پانی سے نظام ہضم کی کئی بیماریاں پھیلتی ہیں جن میں ٹائیفائیڈ ،بخار یا آنتوں کابخار اورہیضہ قابل ذکر ہیں۔ ممتاز معالج عظمت اللہ شریف نے نے کہاکہ جراثیمی بیماریاں بالخصوص آنتوں کی سوزش‘ قبض اور بواسیر پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ گندا پانی ہے۔ نلکوں کے پانی کو خطرے سے خالی نہیں سمجھنا چاہیے ،پانی کے ہر قطرے میں زندگی پوشیدہ ہے اس لیے اس کی حفاظت ہمارا انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔معاشرتی سطح پر پانی کے استعمال میں کفایت اور صاف پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبو ں پر فوری توجہ نہ کی گئی تو پوری نوعِ انسانی کو مستقبل میں بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔پاکستان میں پانی کی آلودگی کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ شہروں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کی صرف 8 فیصد مقدار اور صنعتی آلودہ پانی کی محض ایک فیصد مقدار کو ہی ٹریٹمنٹ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔یہی پانی ہمارے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کا باعث بنتا جو انسانی زندگی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔سمندری پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائے جائیں اورگھروں میں سپلائی ہونے والے پانی کے پائپس کو صاف رکھنے کا مستقبل نظام بنایا جائے۔اس سلسلے میں تعلیمی اداروں کے علاوہ معاشی سطح پر دینی و سائنسی طرز پر شعورو آگہی کے پروگرامات کا انعقاد ناگزیر ہے ۔ممتازفارمسٹ شہاب ہاشمی نے کہاکہ پانی میں آلودگی زیادہ تر فضلے میں پیدا ہونے والے جراثیموں، زہریلی دھات، گدلاپن، حل شدہ مضر عناصر، نائٹریٹ اور فلورائیڈ کی موجودگی کی وجہ سے ہوتی ہے آلودہ پانی انسانوں کا ایک بڑا قاتل ہے۔ ہر سال 30 لاکھ پاکستانی آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے 12 لاکھ انسان اپنی زندگی سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتے ہیں۔ جن میں 2 لاکھ 50 ہزار بچے شامل ہیں۔ عالمی تجزیے کے مطابق صوبہ سندھ میں جوپانی عوام کو میسرہے، وہ انتہائی غیرمعیاری ہے۔ اسی طرح تجزیے سے ثابت ہوا کہ کراچی میں پینے کے پانی میں انسانی فضلہ ملا ہوتا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی، کرپشن اور توانائی کے بحران جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے، لیکن اعدادو و شمار کے مطابق صاف پانی کا فقدان مندرجہ بالا تمام مسائل سے زیادہ خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے۔’’پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز’’ کی نگرانی میں ملک بھر کے 24 اضلاع اور 2807 دیہات سے اکٹھے کیے گئے پانی کے نمونوں کے ٹیسٹ کیے گئے تو یہ خوفناک انکشاف ہوا کہ 62 سے 82 فیصد پینے کا پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب میں اٹک کے مقام پر 85 فیصد، بہاولپور 50، فیصل آباد45، گوجرانوالہ 68 ،گجرات اور قصور میں 78 فیصد، لاہور میں24فیصد، ملتان میں 48 فیصد، راولپنڈی میں73، سرگودھا 77، شیخوپورہ 44 اور سیالکوٹ کے پانی میں 45 فیصد آلودگی پائی گئی جبکہ لاہور، ملتان ، سرگودھا ، قصور اور بہاولپور کے پانی میں سینکھیا کی مقدار موجود ہونے کا بھی انکشاف ہوا۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ سیوریج اور گندے پانی سے سبزیاں تیار کی جا رہی ہیں جو کہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ ایسی سبزیوں سے ہڈیوں، جوڑوں، جگر، گردے، اور دل پر اثر ہوسکتا ہے۔ اعصابی نظام پر بھی برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں