افغانستان کا نیا منظر نامہ

698

افغانستان کا نیا منظر نامہ کیا رخ اختیار کرتا ہے اور وہاں آنے والی جوہری تبدیلی افغانستان کے ساتھ ساتھ خطے کے حالات پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے اس حوالے سے تادم تحریر نہ تو کوئی بات حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کرنا اتنا آسان ہے جتنا بالعموم تصور کیا جاتا ہے۔ اس نقطہ ٔ نظر کی بنیادی وجہ اولا ً تو افغانستان کی عمومی صورتحال ہے جس کے بارے میں پچھلے چالیس پچاس سال سے کوئی بھی مستحکم رائے قائم کرنا بہت مشکل امر رہا ہے، ثانیاً موجودہ حالات نے جس تیزی سے پینترا بدلا ہے اس کی توقع شایدان حالات کو بدلنے کا موجب بننے والوں کو بھی نہیں رہی ہوگی۔
افغان امور کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے افغانستان کے حالات پر ہماری نظر ویسے تو افغان جہاد کے زمانے سے رہی ہے لیکن جس سرعت سے یہاں پچھلے دو ہفتوں کے دوران حالات میں تغیر واقع ہوا ہے اس کی نظیر پچھلی پانچ دہائیوں میں ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔ افغانستان کے شمالی صوبوں سے اپنی پے درپے فتوحات کا آغاز کرنے کے بعد طالبان جس تیزی اور برق رفتاری کے ساتھ جنوب مشرقی افغانستان کی طرف بڑھ رہے تھے اور شہر کے شہر راتوں رات بغیر کسی بڑی مزاحمت کے ان کے قبضے میں آ رہے تھے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی افغانستان میں ایک بڑی خونریزی اور نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کے خدشات ظاہر کر رہا تھا۔ صفحوں کے صفحے اس بات پر سیاہ کیے جا رہے تھے کہ طالبان کی یہ پیش قدمی عارضی اور مصنوعی ثابت ہوسکتی ہے بلکہ بعض لوگ تو طالبان کی ان ابتدائی فتوحات کو طالبان کو ٹریپ کرنے، امریکی انخلا کو عارضی طور پر روکنے، طالبان کے ٹھکانوں پر امریکی میزائل اور فضائی حملوں کی راہ ہموار کرنے یہاں تک کہ بھارتی فضائیہ اور اسپیشل سروسز گروپ کے دستوں کی افغانستان میں اترنے کے امکانات سے جوڑ رہے تھے۔ دراصل اس بیانیے کے پیچھے جہاں افغانستان کے پلک جھپکتے میں زمین بوس ہونے والے سیاسی و دفاعی ڈھانچے کی بیس سال تک امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے کی جانے والی پرورش اور اس ضمن میں کی جانے والی کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو بطور دلیل پیش کیا جا رہا تھا وہاں افغان حکومت بالخصوص اشرف غنی اور ان کے ہم نوا شمالی اتحاد اور پختون قوم پرستوں جن میں اکثریت سابق کمیونسٹوں کی تھی کی جانب سے طالبان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے دعوے کیے جارہے تھے۔ یہ وہ ظاہری عوامل تھے جن کی بنیاد پر ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا امریکی انخلا کے باوجود افغان سیکورٹی فورسز میں اتنا دم خم ہے کہ وہ نہتے اور بے سرو سامان طالبان کا مقابلہ کر سکیں گی لیکن یہ خیال اس وقت خیال خام ثابت ہوا جب پہلے ہرات کے سابق گورنر اور معروف جنگجوراہنما اسماعیل خان نے بغیر لڑے سرنڈر کرتے ہوئے ہرات کو طالبان کے حوالے کیا اور بعد میں طالبان آندھی بن کر افغانستان کے دوسرے بڑے شہر اور ماضی میں طالبان کا گڑھ رہنے والے قندھار شہر پر قابض ہوئے۔
ہرات اور قندھار جیسے اہم اسٹرٹیجک شہروں پر قبضے سے محض دو یا تین دن پہلے جب اشرف غنی نے محاصرہ شدہ مزار شریف کا دورہ کیا اور وہاں ازبک جنگجوکمانڈر اور سابق نائب صدر رشید دوستم اور بلخ کے سابق گورنر اور شمالی اتحاد کے اہم راہنما استاد عطا نور سے ملاقات کی تو اس ملاقات کی فوٹیج میڈیا کو جاری کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی گویا افغان حکمران نہ تو خوف اور بد دلی کے شکار ہیں اور نہ ہی اتنی آسانی سے طالبان کے ہاتھوں شکست تسلیم کرنے پر آمادہ ہوں گے اس ضمن میں ان دنوں سوشل میڈیا پر اشرف غنی کے بلند بانگ دعوئوں پر مبنی جو ویڈیو کلپس گردش کر رہی ہیں ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت نے طالبان کی طاقت کا جو اندازہ لگایا تھا وہ نہ صرف انتہائی غلط بلکہ غیر سنجیدہ بھی تھا۔ اس تمام تر پیش رفت کے باوجود عام تاثر یہ تھا کہ افغان حکومت کم از کم کابل سے اتنی آسانی سے دستبردار اور پسپا نہیں ہو گی بلکہ وہ کابل کے دفاع کے لیے آخری حد تک جائیگی یہ وہ نکتہ تھا جس نے عام افغانوں اور افغانستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کو پریشان کر رکھا تھا یہی وجہ ہے کہ پاکستان امریکی انخلا کا ٹائم فریم سامنے آنے کے بعد بالعموم اور انخلا کی ڈیڈ لائن قریب آنے کے موقع پر بالخصوص امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے انخلا سے پہلے پہلے افغان حکومت اور طالبان کے درمیاں سیاسی تصفیے پر زوردے رہا تھا لیکن اس دوران اشرف غنی نے بغیر کسی تصفیے کے جس بزدلی اور سرعت سے افغانستان چھوڑا اس نے حالات کو مزید گمبھیر بنا دیا اس صورت حال کو جہاں کابل ائر پورٹ پر ہزاروں افراد کی یلغار اور وہاں کا کنٹرول امریکی افواج کے ہاتھوں میں جانے نے دھماکا خیزبنا دیا ہے وہاں سابق نائب صدر امر اللہ صالح اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کے جانب سے وادی پنج شیر میں مسلح مزاحمت کے اعلان نے بھی حالات کے مزید خراب ہونے کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے البتہ اس تمام صورتحال کا یہ پہلو ہر لحاظ سے قابل اطمینان ہے کہ طالبان نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اس مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد جہاں اپنے مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے وہاں ان کی جانب سے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ شراکت اقتدار پر ان کی رضامندی کو بھی ایک بڑا بریک تھرو قرار دیا جارہا ہے جس پر حالات نسبتاً بہتری کے جانب گامزن ہونے کی امیدباندھی جا سکتی ہے۔