چودہ اگست پھرآيا ہے‬

1812

کھٹی میٹھی یادوں کی خوشبو لے کر آیا ہے
آزادی کی قیمت ہم کو یاد دلانے آیا ہے
غم ہوئے تھے کوسوں دور پھریہ جتلانے آیا ہے
گلیوں کوچوں میں تھی رونق یاد کرانے آیا ہے
کتنوں نے دی تھی قربانی آزادی کی راہوں میں
آنکھوں پر جو ہیں پردے ان کو ہٹانے آیا ہے
اب بھی گر ہم نہ سمجھیں گے ان دجالی فتنوں کو
الجھے رہیں گے، اٹھ نا سکیں گے یہ سمجھانے آیا ہے
پرکھوں نے جو قربانی دی، یاد دلانے آیا ہے
14 اگست پھر آیا ہے 14پھر اگست آیا ہے
ساجدہ اقبال