شہادت امام حسینؓ

288

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا اور اُن کے لیے بہترین نظام بھی دیا۔ اس نظام کو محمدؐ نے قائم کیا اور آپؐ کے خلفائے راشدین نے اسے قائم رکھا۔ اس نظام میں عدل و انصاف، امن، بھائی چارے اور معاشی خوشحالی معیاری تھی۔ مزدور کی تنخواہ وقت کے حکمران کے برابر تھی اور خوشحالی جو کہ انسانوں کو بہت ہی زیادہ محبوب ہوتی ہے اپنے عروج پر تھی۔ زکوٰۃ دینے والے لاکھوں کی تعداد میں تھے اور زکوٰۃ لینے والے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے تھے۔ ایک عام آدمی وقت کے حکمران کے گریبان میں ہاتھ ڈال سکتا تھا۔ عدالت میں وقت کے حکمران اور ایک عام آدمی کو برابر حیثیت دی جاتی تھی اور حکمران عام آدمی کی طرح عدالتوں میں پیش ہوتے تھے۔ یہ انسانوں کے لیے ایک ایسا نظام رحمت تھا کہ عام انسانوں کو دنیا میں جنت کا ماحول میسر آگیا ہے۔
جب اس نظام خلافت کو بادشاہت میں بدل دیا گیا اور یزید کی بادشاہت قائم کردی گئی تو نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؓ سے بیعت کا مطالبہ کیا گیا۔ آج کی اصطلاح میں ووٹ کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے نا صرف انکار کیا بلکہ آقاؐ کے قائم کردہ نظام اسلامی کو بدلنے کی مزاحمت کی اور اس کی پاداش میں نہ صرف اپنی گردن کٹوائی بلکہ اپنا پورا خانوادہ قربان کیا۔ آج جب ہم حضرت امام حسینؓ کی یاد مناتے
ہیں تو اُن کے اس مشن کو بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے ظلم کے نظام کے خلاف بغاوت کی تھی اور عدل و انصاف امن و سلامتی، انسانیت کی قدر منزلت، بھائی چارے اور خوشحالی کو قائم رکھنے کے لیے قربانی دی تھی۔ آج جب ہم اپنے نظام کو دیکھتے ہیں تو یہ انسانوں کے لیے ظلم اور ناانصافی کا پھندا بن چکا ہے۔ اور ظالم مظلوم دونوں حضرت امام حسینؓ کی یاد مناتے ہیں۔ مظلوموں کو جاننا چاہیے کہ ظالم محض اپنے ظلم کو جاری رکھنے کے لیے ان پاکیزہ روحوں کا نام استعمال کرتا ہے۔ آج مزدوروں کے حقوق کو غضب کرکے اُن کے ساتھ روا رکھا جانے والا ظلم اور ظلم کا یہ نظام تقاضا کرتا ہے کہ حضرت امام حسینؓ کی طرح اس نظام کا انکار کیا جائے۔ اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جائے اور پوری انسانیت کی بھلائی اور فلاح کے لیے پسے ہوئے مزدوروں، کسانوں کو ظلم کی اس چکی سے نجات دلانے کے لیے حضرت امام حسینؓ کے نقش قدم پر چل کر عدل و انصاف، امن و سلامتی، بھائی چارے، خوشحالی اور انسانیت کے لیے اسلامی انقلاب کا علم بند کیا جائے۔