کر اچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) حکومت کی سر براہی میں جو معاشرہ تشکیل دیا گیا ہے وہ زوال پذیر ہے‘ ہمارا معاشرہ ہیرو بنانے کے قابل ہی نہیں رہا‘ اس کا ذمے دار وہ نظام اور نظام حکمرانی ہے جو قوموں سے صلاحتیوںکو سلب کر کے ان کی حوصلہ شکنی کر تا ہے‘ انسان بنیادی طور پر حسن پرست ہے‘ چمک دھمک اور گلیمر کو پسند کرتا ہے جس کی وجہ سے میڈیا میں بار بار دکھائی جانے والی شخصیت نوجوان نسل کی ہیرو بن جاتی ہے ‘ سول سوسائٹی کے تمام کرداروں کے مابین توازن کے بگاڑ کی وجہ سے مفادات اور خاص ایجنڈے کے تحت ہیروز کو تخلیق کیا جاتا ہے اور ان کی رائے کو مقدم سمجھا جاتا ہے جس کی بنا پر معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ منظر سے غائب ہو رہا ہے اس کا واحد حل یہ ہے کہ معاشرے میں دوبارہ سماجی توازن پیدا کیا جا ئے‘ ادیب، دانشوروں اور شاعروں کو وہ مقام دیا جائے جس کے وہ حقدار ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر راشد نسیم، جامعہ کراچی کی شعبہ نفسیات کی سر براہ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال، جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد علی اور معروف تجزیہ کار ڈاکٹر نواز الہدیٰ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کے بجائے اداکار، گلوکار اور کرکٹرز ہمارے ہیروز کیوں ہیں؟‘‘ راشد نسیم نے کہا کہ زندگی کے حق و باطل کے اصولوں کو چھوڑ کر معاشرے پر سر سری نظر ڈالی جائے تو اس وقت پاکستانی معاشرہ ہمیں کھیلوں سمیت کسی بھی شعبے میں اچھی کار کر دگی دکھاتا نظر نہیں آتا‘ پاکستان اولمپک میں کبھی ٹائٹل ہولڈر ہوا کرتا تھا‘ اب ہیرو بنا تو بہت دور کی بات فی الوقت حکومت کی سر براہی میں جو معاشرہ تشکیل دیا گیا ہے‘ وہ زوال پذیر ہے جو کرکٹ، ہاکی اور دوسرے شعبوں میں کچھ نہیںکر پا رہا‘ جب معاشرے ترقی کرتے ہیں تو ہمہ وقت ، ہمہ پہلو ترقی کرتے ہیں حالیہ اولمپک کو ہی لے لیں ٹائٹل گولڈ میڈل ان افراد نے زیادہ جیتے جن کے معاشرے ہمہ پہلو ترقی کر رہے ہیں‘ ایسے معاشرے کے افراد اولمپک بھی جیت رہے ہوتے ہیں بلکہ کھیلوں، ثقافت، شاعری، ادب و دیگر شعبوں میں بہترین کارکردگی دکھاتے نظر آتے ہیں‘ پاکستان میں اس وقت کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں ہے جو کچھ اچھا کر رہا ہو‘ ایک طر ف پی آئی اے، اسٹیل ملز اورددیگر حکومتی ادارے زوال کا شکا ر ہیں اور دوسری جانب ادب، شاعری، ثقافت، فلمیں اور کھیل بھی زوال پذیر ہیں اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ گلوکار، کرکٹرز اور اداکار نئی نسل کے ہیروز ہیں مجھے تو کہیںکو ئی ہیرو نظر نہیںآتا اس وقت کیفیت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ہیرو بنانے کے قابل رہا ہی نہیں‘ معاشرے میں ایسا زوال پیدا ہوا ہے کہ ہر جانب افراتفری اور بے چینی کی فضا قائم ہے‘ جب قومیں زوال کا شکار ہوتی ہیں تو ہمہ پہلو زوال کا شکار ہوتی ہیں‘ اس کا ذمہ دار وہ نظام اور نظام حکمرانی ہے جو قوموں سے صلاحتیوںکو سلب کر کے ان کی حوصلہ شکنی کر تا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال نے کہا کہ انسانی زندگی میں کسی کو بھی رول ماڈل بنا یا جا سکتا ہے ‘ انسان میں کسی صلاحیت کی کمی یا اپنے خوابوںکو حقیقت کا روپ دھارنے کی تکمیل ہی رول ماڈل میں تبدیل ہوجاتی ہے‘ میڈیا جس چیز کی معاشرے میں تشہیر کرتا ہے‘ عوامی رائے اس طر ف منتقل ہونے لگتی ہے‘ حالیہ دور میں میڈیا ہر گھر میں سرائیت کر چکا ہے‘ اس کی دسترس سے چھوٹے بڑے محفوظ نہیں رہ سکتے‘ گزشتہ دور میں میڈیا پر ادیب، دانشور اور شاعروں کو مدعو کیا جاتا تھا اور ان کی رائے کو مقدم سمجھا جا تا تھا جبکہ گھروں میں بھی چھوٹے بڑے کتاب پڑھنے میں دلچسپی رکھتے تھے اور خاندان کے بڑے بوڑھے بچوں کے ساتھ مل بیٹھ کر اپنے اسلاف کی کہانیاں سنایا کرتے تھے ‘ انسانوں میں کسی قسم کی دوری نہیں تھی اور وہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے‘ بچپن میں ہی بچہ اپنی زندگی کا مقصد پانے کے بعد اپنا رول ماڈل منتخب کر لیتا تھا اور اس جیسا بنے کی تگ دو میں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروکار لا تا تھا‘ آج کی دنیا میں ہم نے اپنے بچوں کو موبائل اور آئی پیڈ دے دیا ہے جس کی وجہ سے بچوں اور بڑوں میں ایک خلا پیدا ہوا ہے اور اس خلا کو بچہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھرنے کی کوشش کرتا ہے اور جو کچھ وہ دیکھتا ہے اس سے وہ متاثر ہوکر ویسا ہی بنے کی کو شش بھی کرتا ہے‘ انسان بنیادی طور پر حسن پرست ہے وہ چمک دھمک اور گلیمر کو پسند کرتا ہے ‘ میڈیا ایسی چیزوں یا شخصیت کو بار بار دکھاتا ہے جس کی وجہ سے میڈیا میںہیرو بنا کر پیش کرنے والی شخصیت نوجوانوں اور بچوں کے ذہنوںمیں سرائیت کر جاتی ہے اور وہ ویسا ہی بنے کی کو شش کر تا ہے ، حالیہ سر مایہ داری نظام میں نوجوان لگژری اور مادی سہولیات کو جلد ازجلد حاصل کرنے کی دوڑ میں بھی اپنے ہیرزو ایسے افراد کو بنا لیتے ہیں جو کھیلوں، ڈراموں اور فلموں میں دکھائے جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ بدقسمتی سے حکومتی عدم سرپرستی، مغربی تہذیب کی یلغار، میڈیا پر چمک دھمک اور دولت وشہرت کے حصول کے لیے شارٹ کٹ جیسے رجحانات کی وجہ سے فنکاروں اور گلوکاروں کو بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے‘ ماہر تعلیم، ادیب اور دانشوروں کے بجائے میڈیا میں اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو میزبان بنا کر ہیرو کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے اور ان کے شعبے سے ہٹ کر دینی، سیاسی و دیگر معاملات میں ان کی رائے کو اہمیت دی جا رہی ہے جس کی بنا پر معاشرے کا سب سے پڑھا لکھا طبقہ منظر عام سے بتدریج غائب ہو رہا ہے‘ایک وقت تھا جب دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کے پیش کر دہ نظریات کی وجہ سے ہمارے معاشرے کی پالیسیاں ، ڈرامے اور فلمیں بنائی جاتی تھیں یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں ہمارے ڈرامے بہت مقبول تھے جبکہ عصر حاضر میں یہ تمام شعبے تنزلی کا شکا ر ہیں‘ پاکستانی معاشرہ نہ صرف علمی تحقیق سے محروم ہونا شروع ہوگیا ہے بلکہ کھیل، اداکاری اور گلوکاری میں بھی خاطر خواہ نام نہ پیدا کر سکا جس کی مثال یہ ہے کہ پاکستان گزشتہ21 سال کے دوران کو ئی بھی گولڈ میڈل حاصل نہیں کر سکا۔ڈاکٹر نواز الہدی نے کہا کہ کسی بھی معاشرے کی تشکیل اور اصلاح وہاں پنپنے والے نظریات پر کی جاتی ہے‘ ادیب اپنے کردار، شاعر اپنی شاعری اور دانشور اپنے کردار اور نظریات کے امتزاج سے ہی ماضی، حال اور مستقبل کے اثرات کو بیان کرتے ہیں‘ ان کے مقابلے میں اداکار، گلوکار اور کھلاڑی معاشرے میں وقتی تفریح کی علامت بن جا ئیں تو باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکمران عوام کو اصل مقاصدسے توجہ ہٹانے کے لیے غیر ضروری اور فضول چیزوں کے پیچھے لگائے رکھنا چاہتے ہیں جو ظالم حکمرانوں کا ایک خاص ایجنڈا ہوتا ہے تاکہ لوگ ان کے کرتوتوں کے خلاف یکسو نہ ہو سکیں‘ ہر ایک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے من پسند قوانین کو ترجیح دیتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت مختلف اقسام میں تقسیم کر رکھا گیا ہے تاکہ عوام کی سوچ و فکر ایک خاص ایجنڈے کے تحت ہی نشوونما پا سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ریاستی قوت اپنے مفادات اور ایجنڈے کے تحت ہیروز کو تخلیق کرتی ہے‘ پاکستان میں میرٹ سے ہٹ کر اپنی مرضی کے اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو اعزازات سے نوازنے کا بنیادی مقصد صاحب علم و اساتذہ اکرام کی بے توقیری ہے تاکہ معاشرے میں عدل کے لیے پائیدار طریقے سے کام کو سر انجام نہ دیا جاسکے۔