برس ہا برس کی انگریزوں کی غلامی نے مسلمان ممالک میں اچھی خاصی تعداد ان افراد کی پیدا کردی جو مغربی افکار سے اتنے مغلوب ہوگئے ہیں کہ اسلام پر مغربی حملوں کے دفاع کے بجائے ان کی حمایت میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں اور ان کی ہر لمحہ کاسہ لیسی اپنا فرض اوّلین سمجھتے ہیں۔ مغربی حملوں کی تائید میں یہ افراد قرآن و حدیث سے کھیلنے سے بھی باز نہیں آتے اور ان کے حق میں من مانی تاویلیں پیش کرتے ہیں ان افراد کی تعداد ہمارے یہاں تو کم ہے مگر بدقسمتی سے یہ افراد ملکی انتظامیہ کی اہم ذمے داریوں پر قابض ہیں۔ ان کاسہ لیس افرا د کا ہراول دستہ وہ کالم نگار ہیں جو اس طرح کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔
الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے جس طرح فحاشی اور عریانی کو فروغ دینے کا بیڑا اٹھایا اس کی تازہ مثال ہفتہ سات اگست 2021 کے جنگ اخبار میں ایک کالم شائع ہوا جس کا عنوان تھا ’’ہنجر وال سے لندن تک‘‘ یہ کالم نگار حسن نثار کا تحریر کردہ ہے۔ حسن نثار لکھتے ہیں کہ ’’جہاں انسان ہوگا وہاں گناہ بھی ہوگا، جرم بھی ہوگا لیکن اس معاشرے میں تو تمام سائونڈ بیریئرز ہی ٹوٹ چکے۔ کس قسم کی گھٹن اور کس نوعیت کا حبس ہے کہ آدم زادوں کی روحوں پر مالی اور جنسی آدم خوروں کا قبضہ ہے۔ دیکھنے میں انسان، برتنے میں شیطان در شیطان در شیطان۔ ملکی اقتصادی حالت سدھارنے کے سو طریقے ہیں، اس کام کے لیے ایکسپرٹس یعنی ٹیکنو کریٹس کی بھی کمی نہیں اور آثار بھی اقتصادی سدھار کے اشارے دے رہے لیکن بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اجتماعی، اخلاقی بربادی کو کون اور کس طرح سنبھالے گا کیونکہ اس کے نام نہاد ذمے دار اور ایکسپرٹس تو خود اخلاق باختگی کے شرمناک نمونے پیش کر رہے ہیں، ذہنی پستی اور جہالت کے سرچشمے ہیں۔ کسے یاد نہ ہوگا کہ عشروں پہلے اقبال نے کن پیشہ وروں کو ’’فی سبیل اللہ فساد‘‘ کی جڑ قرار دیا تھا‘‘۔
قرآن میں سورہ البقرہ میں اللہ رب کریم فرماتاہے کہ ’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے‘‘ آپؐ نے فرمایا کہ ’’جب تم میں حیا نہ رہے تو تم جو چاہے کرو‘‘۔ حسن نثار صاحب اپنے اس کالم میں شکوہ کررہے ہیں کہ معاشرے میں تو تمام ساؤنڈ بیرئیز ٹوٹ چکے ہیں معاشرے میں انسان گھٹن اور حبس میں پریشان ہے ہر انسان کی روح کے اندر مال کی حوس اور خواہشات نفس کے پورے کرنے کی ہوس سرایت کرگئی ہے ہر انسان حسن نثار صاحب کو شیطان نظر آرہا ہے اقتصادی طور پر ہمارا ملک تباہی کے دہانے پر موجود ہے اس کی بڑی وجہ اشرافیہ کی بدیانتی لوٹ کھسوٹ ہے اور اس پر طرفہ تماشا یہ کہ ہمارا عدالتی نظام کسی ساحل کی ریت سے بنے محل کی طرح ہے جو ہر ایک موج پر اپنا وجود کھودیتا ہے ہم جیسے بھولے لوگ پھر اسی ریت سے اس نظام کے لیے ایک اور محل تعمیر کردیتے ہیں۔ یہ وہ عدالتی نظام ہے جس نے آج تک کسی مظلوم کو اس کی دہلیز پر انصاف نہیں دیا ہے اسلام کے عادلانہ نظام اور اس کے فیصلوں کا ذکر یہاں کیا جائے تو بات کئی کالموں پر بھی ختم نہ ہوگی ایسا نہیں ہے کہ حسن نثار صاحب کے مطالعے سے نہ گزری ہو مگر چونکہ یہ لبرل ازم کی خوبی ہے کہ بڑی مہارت سے حقیقت کو ہضم کرجاتا ہے اور سچ کو دبا لیتا ہے حسن نثار نے لکھا ہے کہ جہاں انسان ہوگا وہاں جرم بھی ہوگا یہ بالکل ٹھیک بات ہے لیکن عدلیہ اگر اپنا کام دیانت داری سے انجام دے رہی ہوگی اور مجرم سزا ٹھیک ٹھیک پارہے ہوں گے تو جرائم پیشہ افراد معاشرے میں نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے مگر ایسا تو اس وقت ممکن ہوگا جب اسلامی عدالت قائم ہوگی صرف اور صرف اسلامی عدالت ہی میں انصاف سب کے لیے برابر ہوتا ہے۔ آپ کی ان مغربی طرز کی عدلیہ اور ان کے منصفوں یہ امید رکھنا تو فضول ہے۔ رہی بات اقتصادی سدھار کی تو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کوئی بڑا ایکسپرٹ ٹیکنوکریٹ بھی ہمارے اقتصادی حالت میں سدھار نہیں لاسکتا کیونکہ ان ٹیکنو کریٹس کے اندر مہارت یا صلاحیت تو ہے مگر صالحیت نہیں ہے۔ صالحیت کے بغیر صلاحیت ایسے ہی ہے جیسے پٹرول کے بغیر گاڑی، جو دھکّے سے کچھ دور تو جاسکتی ہے مگر کسی کو منزل تک نہیں پہنچا سکتی ہے۔ ہر ادارے کو جب کرپشن دیمک کی طرح چاٹ گئی ہے تو معلوم نہیں کو ن سے ایکسپرٹ ٹیکنوکریٹ آپ کو اقتصادی حالت میں بہتری کے اشارے دے کر آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ اقتصادی حالت میں سدھار کے سو طریقے نہیں ہیں بلکہ ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے کرپشن کا خاتمہ کرپشن کی موجود گی میں اقتصادی بہتری ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔
دوسرا شکوہ یہ کیا ہے موصوف نے کہ ہمارا معاشرہ عدم تحفّظ کا شکار ہوگیا ہے ظاہر ہے یہ معاشرے کے اخلاقی بگاڑ کا نتیجہ ہے اخلاقی بگاڑ میں ہماری اسمبلیاں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور ایسے ایسے بل منظور کررہی ہیں جن سے معاشرے میں اخلاقی انحطاط تیزی سے آئے۔ اس کے نتیجے میں فحاشی کا ایک سیلاب ہے جو ہر طرف سے بند توڑ کر ہماری طرف آچکا ہے اور اس میں ہر انسان ڈوب رہا ہے اس سیلاب سے معاشرے میں موجود انسانوں کے اذہان بری طرح متاثر ہورہے ہیں اس کے نتیجے میں انسان بھیڑیا بن گیا ہے لیکن جہاں یہ سب کھیل ریاستی سرپرستی میں کھیلا جائے وہاں ہمارا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا بھی اپنا کردار ادا کررہا ہے آپ کا ہی کالم جو روز نامہ جنگ میں جون 2021 میں شائع ہو جس ملالہ یوسف زئی کے حالیہ بیان کو آپ نے ایک بچکانہ غلطی قرار دیا اور نکاح اور پارٹنر شپ کو ہم معنی قرار دینے کی کوشش کی اور قرآن میں لفظ ’’عقد‘‘ پر غور کرنے کی عوام کو دعوت دی ہے اور فرمایا ہے کہ جتنا آپ اس لفظ کے معنی پر غور کرتے چلے جائیں گے اتنا شانت ہوتے جائیں گے یعنی جو غم و غصّہ ملالہ کے اس اسلام دشمن بیان پر آپ کو آرہا ہے وہ غصہ جاتا رہے گا، تعجب ہے کہ پورا عالم اسلام اس بیان پر شدید غم غصّے کا اظہار کررہا ہے اور آپ نکاح اور
پارٹنر شپ کو ہم معنی قرار دینے کی کوشش میں لگے ہیں۔ یہ بیان محض اتفاقی نہیں ہے بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے یہ بیان آخر ایک ایسی لڑکی سے دلوایا جارہا ہے جو ایک مضبوط خاندانی نظام کے اندر پروان چڑھی ہے جہاں ایک مرد اور ایک عورت کے بغیر نکاح بطور پارٹنر رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، جہاں اس طرح کے کسی عمل کی ہرگز اجازت نہیں جس کے نتیجے میں خاندانی نظام تباہ ہوتا ہو جہاں عورت کا مرتبہ ایک ماں کی صورت میں گھر کی ملکہ ہے، جہاں عورت بھائیوں کا مان ہے جہاں وہ خاندان کے بنیادی ادارے رشتہ ازدواج کے دو ستونوں میں سے ایک اہم ستون ہے جس کے ذمے ایک بہترین اور تربیت یافتہ فرد قوم کے حوالے کرنا ہے۔
جس لبرل ازم کے علمبردار حسن نثار ہیں اسی لبرل ازم نے عورت کو مردوں کے مقابلے پر اکسایا اور اس کو اس حال میں لا کھڑا کردیا ہے کہ وہ آج مغرب میں اپنے تمام تقدس والے رشتے کھوچکی ہے۔ آج مغرب میں عورت باپ کی محبت، بھائی کی شفقت شوہر کی محبت کا تلاش میں سرگرداں ہے، آج عورت اسی مرد کے ہاتھوں اذیتیں سہ رہی ہے جو اس کا بوائے فرینڈ تھا کیونکہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ تو لبرل معاشرے میں کپڑوں کی طرح تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ آج عورت کو مکمل تحفّظ حاصل ہے تو وہ اسلام کی آغوش میں مل رہا ہے اگر کہیں مسلم معاشرے میں عورت غیر محفوظ ہے تو اس کی وجہ بھی اسلام سے رو گردانی ہے، مغرب میں اگر کوئی عورت اسلام کے دائرے میں آتی ہے تو اس کی وجہ بھی مغربی معاشرے میں عورت کا غیر محفوظ ہونا ہے۔ آج اسلام سے خوف زدہ لبرل ازم ہمارے خلاف محاذ آرائی پر نئے انداز سے حملہ آور ہے اس لشکر کے ہراول دستے میں حسن نثار جیسے کالم نگار ہیں جو ایک طرف تو معاشرے کو جنس زدہ اور ہیجان میں مبتلا کرنے والے نظریات کی خدمت بھی کرتے ہیں تو دوسری طرف، اجتماعی اخلاقی دیوالیہ پن کا رونا بھی روتے ہیں اور ملالہ یوسف زئی جیسی نام نہاد پاکستانی و مغربی ایجنٹ ہیں جو گزگز بھر زبان باہر نکال کر اسلام کے شعائر کو نشانہ بنارہے ہیں کی حمایت بھی کرتے ہیں۔