ادیب سازشخصیت

433

ناقدری ایک بہت ہی بْری خصلت ہے چاہے وہ کسی بھی نعمت کی ہو، وہ نعمت اموال کی قبیل سے ہو یا املاک کی یا پھر اشخاص کی، نتیجہ اس کا محرومی اور پیشمانی ہوتا ہے، مگر یہ ناقدری کا وائرس ہمارا قومی المیہ بن چکا ہے۔
قومیں اپنے بڑوں کے تجربات سے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر ہی آگے بڑھا کرتی ہیں، جہاں کہیں کسی شعبے میں وہاں کے بڑے کو پہلے تو بڑا سمجھا جاتا ہو اور پھر ان سے سیکھنے کا جذبہ بھی بیدار ہو تو وہ افراد اور وہ شعبہ ترقی کرتا رہتا ہے ورنہ وہ بڑے اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ہی رخصت ہوجاتے ہیں اور کوئی ان کا وارث نہیں رہتا۔ نتیجہ وہ خیر اور وہ خوبی مٹتی چلی جاتی ہے، یوں لوگ کئی عمدہ باتوں اور کمالات سے محروم ہوجاتے ہیں۔
اس عظیم المیہ کی وجہ ایک طرف تو ہمہ دانی کا فروغ پاتا جذبہ ہے اور دوسرا بڑے کو بڑا سمجھ کر اس کے تجربات سے استفادہ نہ کرنا ہے، ہم اپنی ذات میں ہی سب کچھ ہیں اس لیے ہمیں اپنی محرومی کا بھی اندازہ نہیں۔
اس افسوس وغم کے جذبات کا محرک دراصل ایک عظیم علمی اور ادبی صلاحیتوں کی حامل درویش صفت شخصیت کا دنیا کی اس بھری محفل سے ناگہاں اٹھ جانا ہے جن کی وفات سے صحافت وادب کی دنیا میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جو شاید ایک عرصہ تک پْر نہ ہوسکے۔
یہ شخصیت جناب اطہر ہاشمی کی ہے جو اْن عظیم شخصیات میں سے ایک تھے جو ایک دو نہیں سیکڑوں، ہزاروں لوگوں کو ہنرمند بنانے کا فن جانتے تھے اوراس کے لیے فکر مند بھی رہتے ہیں۔ وہ اردو ادب کے شہسواروں میں سے تھے، اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، بہت سی ناموَر شخصیات کو بنانے، سکھانے اور بلند سے بلند مقام تک پہنچانے میں ان کی محنت اور توجہ شامل رہی ہے۔ وہ بہت ہی بْردبار، خاموش مگر شگفتہ انسان تھے جو انسان کے بڑا ہونے کے لیے کافی ہے، ایسے لوگوں کی خاموشی بھی ایک آواز رکھتی ہے کئی قابلِ سماعت آوازوں سے بہتر ہوتی ہے۔ ان کا علمی وفنی کردار ہو یا شخصیت کی سادگی ہمدری کا جذبہ ہو یا جفاکشی کی عادت کام کی لگن ہو خیر خواہی کی عادت سب کا سب قابلِ تعریف اور قابل تقلید ہے۔
ان کی جہاں اور بہت سی خصوصیات ہیں وہیں ایک خصوصیت خاموش جدوجہد بھی ہے، انہیں پیسے کی لالچ تھی نہ جاہ ومرتبہ کی چاہ، اسی لیے مجھ سمیت بہت سے بے خبروں کو ان کے مقامِ بلند کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا لیکن دوسری طرف ان سے سیکھنے والوں اور فائدہ اٹھانے والوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے، یہ لوگ بلاشبہ خوش قسمت ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے، جن کے اندر طلب تھی اور وہ نعمت کی قدردانی کرنا جانتے تھے آج وہ مطمئن اور خوش ہیں اور ناقدروں کے پاس کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، مگر اس افسوس کا مداوا اپنی اِس ناقدری کے مزاج کو بدل کر ہوسکتا ہے، اگر واقعی ایسا ہوجائے تو پھر افسوس کی ضرورت نہیں کیونکہ پھر آپ بھی ان کے شاگرد اور ان کے تربیت یافتہ شمار ہوجائیں گے، کیونکہ وہ جاتے جاتے ہمیں اور دوسروں کو بھی سکھا گئے! ’’قدر دانی‘‘ انہوں نے اردو ادب کی عظیم خدمت انجام دی ہے اور صحافتی تحریروں میں بھی لکھت پڑھت کی درستی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے، جیسا کہ ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ وغیرہ جیسے مضامین اس کی عکاسی کرتے ہیں، اس کے علاوہ بھی بے شمار مضامین، رسائل وغیرہ لکھ کر اپنی یادگار چھوڑ گئے ہیں، تاکہ ہم جیسے زبان وادب سے غفلت میں پڑے لوگ بیدار ہوں تو کچھ تلافی ِ مافات کرسکیں۔ یقینا ان کی عظیم تحریری کاوشیں شائقینِ اردو کے لیے خصوصاً اور دیگر لوگوں کے لیے بالعموم گراں قدر سرمایہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کے خلوص ومحبت کو عام فرمائے اور ان کی تحریروں سے مستفید فرمائے اور آخرت میں ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔