شیخ رشید کا اعتراف ،ازالہ بھی ضروری ہے

724

جنرل پرویز مشرف کے مرکزی ترجمان ان کے وزیر اطلاعات و نشریات اور آج کل کے وزیر داخلہ شیخ رشید بھی اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیںکہ جنگ میں امریکا کا ساتھ دینا غلط فیصلہ تھا ۔ عمران خان کی طرح پرویز مشرف کو بھی اسٹینڈ لینا چاہیے تھا ۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ افغانستان ہے ۔ پاکستان میں40لاکھ افغان مہاجرین پہلے ہی موجود ہیں ۔ مزید برداشت نہیں کریں گے ۔ شیخ صاحب تو ان شیخ صاحب سے بھی آگے نکل گئے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جناب شیخ کا فلسفہ بھی عجیب ہے۔ یہ تو8برس امریکی جنگ کی حمایت میں جنرل پرویز مشرف کے نفس ناطقہ بنے رہے ۔ اس جنگ کی مخالفت کرنے والے کو فوج سے پہلے خود غداری کا سرٹیفکیٹ تھما دیتے تھے جس نے بھی جنگ میں امریکا کی حمایت کے خلاف بات کی اس کے پیچھے پڑ جاتے تھے ۔ دلچسپ بات یہ ہے جناب شیخ، اس وقت بھی سب سے بڑا مسئلہ افغانستان تھا اور پاکستان میں50لاکھ افغان مہاجرین موجود تھے ۔یہ وہ تعداد ہے جو حکمران بتاتے ہیں لیکن افغانستان میں مزاحمت اور روسیوں کی شکست کے بعد بہت بڑی تعداد میں افغان مہاجرین واپس چلے گئے ۔بہت سے پاکستان میں کھپ گئے ۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار 2020ء کے مطابق یہ تعداد 28 لاکھ ہے۔ اگر افغانوں کو اپنے مہاجرین کی مردم شماری کی ذمے داری دی جائے تو دو تین دن میں یہ لوگ مہاجرین کی اصل تعداد بتا دیں گے لیکن اس سے دوسرے بہت سے مسائل پیدا ہو جائیںگے لہٰذا حکومت جو کہتی ہے اسے ہی تسلیم کر لیا جائے کہ40لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں لیکن یہ بھی تو بتائیں کہ ان پر حکومت پاکستان کیا خرچ کر رہی ہے جو پاکستان کو بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ویسے تو حکومتیں پاکستان میں مقیم پاکستانیوں کے لیے کہا کرتی ہیں ان کے پاس تو اس کا جواب بھی نہیں ہے، شیخ رشید صاحب کے بیان کے بعد نیا باب کھل گیا ہے اور وہ سوال پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ اگر جنگ میں امریکا کا ساتھ دینا غلط تھا تو اس غلط کو غلط کہنے والوں سے معافی مانگنی چاہیے۔ جو لوگ اس غلط کام کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے انہیں لا پتا کیوں کیا گیا ان کو ان کے گھر والوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ شیخ رشید صاحب نہایت زیرک سیاستدان ہیں ان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ ان کو یہ بھی پتا ہوگا ہے کہ اس بات کے نتائج اور اثرات کیا ہوں گے۔ چنانچہ وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ محض عمران خان کی کاسہ لیسی کے لیے نہیں کہا گیا ہے بلکہ اس پوری فلاسفی کی نفی کر دی گئی ہے جو 2001ء سے 2021ء تک پاکستان پر مسلط رہی۔ یہ درست ہے کہ 2018ء سے اب تک فوج اور حکومت نے کئی مرتبہ جنگ میں امریکا کی حمایت اور دوسروں کی جنگ میں شرکت کو غلط قرار دیا ہے۔ لیکن اگر اب حکومت کو یہ یقین ہے کہ جنگ میں امریکا کا ساتھ دینا غلط تھا تو اس کی مخالفت کرنے والوں کو تو سب سے پہلے معاف کیا جائے بلکہ ان سے معافی مانگی جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنگ میں امریکا کی حمایت کرنے والوں کو سب سے پہلے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا۔ لیکن ایسے لوگوںکو تو باعزت طور پر ملک سے جانے دیا جاتا ہے اور مخالفت کرنے والوں کو حراستی مراکز میں پھینک دیا جاتا ہے۔ شیخ صاحب کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس اعتراف کے بعد پاکستان کے اربوں روپے کے نقصان اور 70 ہزار جانوں کے نقصان کے ذمے دار بھی اس جنگ میں امریکا کی حمایت کرنے والے ہی قرار پائیں گے۔ کیا یہ لوگ قوم کا یہ نقصان پورا کر سکیں گے۔ یہ تو ایک جان کا بدلہ بھی نہیں دے سکتے کجا کہ 70 ہزار جانوں کا بدلہ… یہ سوال کس سے پوچھا جائے کہ سوات اور وزیرستان آپریشن بھی درست تھے یا غلط۔ پاکستانی قوم کی بیٹی عافیہ کو امریکا کے حوالے کرنا بھی درست تھا یا غلط، طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالے کرنا اور باندھ کر سفارتی آداب کی دھجیاں اڑا کر امریکیوں کو دینا بھی غلط تھا۔ اور کیا اس دور کے تمام مقدمات بھی غلط تھے اور یقیناً غلط تھے تو پھر آج صرف اعتراف کافی نہیں ہوگا۔ اس غلطی کا ازالہ بھی کیا جائے۔ غلطی کرنے والوں کو سزا دی جائے۔ حق بات کرنیو الوں کو سزا بھی دے دی گئی اور غدار بھی قرار دے دیا گیا لیکن ملک و قوم کو اربوں کا نقصان پہنچانے کا فیصلہ کرنے والوں اور 70 ہزار انسانوں کی جانوںکا نذرانہ لینے والوںکو کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ اس اعتراف کے بعد تو شیخ رشید صاحب خود ہی اخلاقاً استعفیٰ دیں۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ گزرے ہوئے وقت اور ان کی حمایت میں ہر دم بولنے پر معذرت کریں اور پھر اگر کسی حکمران میں ہمت ہو تو ایسے تمام لوگوں پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ ہمارے حکمرانوں نے مذاق سمجھ رکھا ہے کہ جب چاہیں کوئی بھی فیصلہ قوم پر تھوپ دیا جائے اور جب چاہیں اسے غلط قرار دے دیں۔ یہ بھی بڑا المیہ ہے کہ پہلے تو ایک حکمران غلطی کرتا اور دوسرا اس کو غلط قرار دیتا تھا لیکن المیہ تو یہ ہے کہ شیخ رشیدہی امریکا کی حمایت کرنے میں پیش پیش تھے۔ اب وہی اسے غلط کہہ رہے ہیں بلکہ وہ جنرل پرویز سے بھی زیادہ سرگرم تھے اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ’’امریکا ہمارا تورا بورا بنا دے گا‘‘ والے خوفزدہ فلسفے پر جنرل پرویز سے زیادہ وہ خود یقین رکھتے تھے۔ ہر وقت امریکا کی طاقت کے گن گاتے تھے۔ ممکن ہے اب طالبان کے خوف سے یہ اعتراف کر رہے ہوں لیکن اب انہیں پاکستان کے وزیر داخلہ کے منصب پر تو نہیں رہنا چاہیے۔