اگست کا مہینہ نجانے کتنی صدیوں پرانا ہے، لیکن اہم سے دو حوالوں سے جانتے ہیں اور ہمارے نذدیک اس کی یہی پہچان اسے ایک ممتاز بناتی ہے کہ اگست میں پاکستان وجود میں آیا اور اگست ہی میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی، پاکستان کا بیانیہ یہ تھا کہ دو قو می نظریہ بر صغیر کے مسلمانوں کو اپنے لیے ایک الگ اسلامی ریاست کے قیام کی راہ دکھاتا ہے جہاں وہ اپنے دین کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں، جماعت اسلامی کا بیانیہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ہے کہ قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور دنیا پر چھاجائو، ایک بیانیہ ریاست کے قیام کی حد تک 14 اگست 1947 کو اپنے نتائج لے آیا، اور دوسرا بیانیہ جماعت اسلامی کا ہے جو ابھی رائے عامہ کی تشکیل کی پگ ڈنڈیوں پر چل رہا ہے، جماعت اسلامی کے بیانیے میں اقتدار کی ذمے داری نبھانے کے لیے معاشرے کے افراد کو صالح بنانا ہے، جماعت اسلامی معاشرے کو اقبال کی زبان میں شرافت، صداقت اور امانت کا سبق پڑھا رہی ہے اور اس کے لیے اپنی تنظیم کی بنیاد رکھنے والے دستور کی شکل میں عملی نمونہ بھی پیش کرتی ہے۔
مولانا مودودیؒ سے براہ راست تربیت پانے والے ایک شخص میاں طفیل محمد کا ایک واقعہ سن لیجیے۔ جماعت اسلامی سمجھ میں آجائے گی، بات بہت پرانی ہے میاں طفیل محمد مری کے دورے پر تشریف لے گئے، مری ان دنوں بھی راولپنڈی کا حصہ تھا اور آج بھی راولپنڈی ہی کا حصہ ہے، مقامی نظم کے لیے مشکل تھی کہ انہیں رات کہاں ٹھیرایا جائے، ان دنوں مری میں ایک ہی ہوٹل تھا غالباً سیسل ہوٹل، مگر وہاں کا ماحول اور رنگ و بو ایسی نہیں تھی کہ میاں طفیل محمد وہاں قیام کرتے، فیصلہ ہوا کہ وہ شفاء الحق کے ہاں قیام کریں گے اور شفاء الحق جماعت اسلامی کے کارکن نہیں تھے، بس یوں سمجھ لیں کہ اللہ کو ان کی ہدایت کے لیے اپنے بندے میاں طفیل محمد کو بھیجنا تھا، سو بھیج دیا، شفاء الحق کی گواہی ہے کہ انہوں نے میاں طفیل محمد کی شیروانی کے اندورنی حصے میں کئی پیوند دیکھے، دوسری گواہی یوں دیتے ہیں کہ صبح کے وقت انہوں نے نماز اور تلاوت سے فراغت کے بعد تیار ہونے سے قبل جوتے صاف کرنے والا برش اور شاید پالش کی درخواست کی، میزبان نے کوشش کی اور نہایت ہی ادب کے ساتھ طویل تمہید باندھی اور گزارش کی وہ سعادت سمجھ کر یہ کام خود انجام دے مگر میاں طفیل محمد نے آنکھوں میں چمک، چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ میزبان کی ساری بات تحمل سے سنی اور پھر حلیم الفاظ میں منع کردیا کہ یہ میرا کام ہے وہ خود ہی کریں گے اور پھر خود ہے اپنی ہاتھوں سے اپنے جوتے صاف کیے یوں میاں طفیل محمد کا ایک رات کا قیام شفاء الحق کی زندگی بدل گیا، تبدیلی اسے کہتے ہیں اور قیادت بھی اسے ہی کہتے جو حلیم ہو، عملی ہو اور جسے بات کہنے اور سننے کا سلیقہ آتا ہو، میاں طفیل محمد نے یہ کام کردکھایا، کہ وہ مولانا مودودی کے ہاتھوں تربیت یافتہ کارکن تھے یہ ہے دل جیتنے اور دلوں پر حکمرانی کرنے کا عملی بیانیہ۔
مولانا کا ایک وصف تھا کہ وہ کبھی کسی کو غصے کی حالت میں جواب نہیں دیا کرتے تھے ہمیشہ پہلے دلیل تلاش کرتے پھر جواب دیتے، آج ہم اور ہمارے شب و روز ایک بار پھر اگست کے مہینے سے گزر رہے ہیں، کئی بار سوچا کہ پاکستان اور جماعت اسلامی کے قیام کا مہینہ ایک ہے تو ایک ان کا بیانیہ ایک کیوں نہیں ہوسکتا؟ یہ سوال پورے اہل پاکستان سے ہے، بیانیے کی بات آگے بڑھاتے ہیں ان دنوں ملک میں ہر سیاسی جماعت کا اپنا الگ ایک بیانیہ ہے، اس بیانیے کی عمارت مصالحت، مفاہمت کے گارے سے تیار کی گئی ہے، ظلم اور اللہ سے بغاوت، اللہ کے قانون سے روگردانی سے اسلام کے بیانیے کی مصالحت اور مفاہمت ہوسکتی ہے؟ نہیں ہوسکتی کبھی نہیں ہوسکتی، یہ مفاہمت اور مصالحت کرنا ہوتی تو لوگوں کی ہدایت کے لیے اللہ انبیاؑ مبعوث نہ کرتا، ایک بار مولانا مودودی کو ایک شخص نے خط لکھا جس کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ مولانا میں جب سے آپ سے ملاقات کرکے واپس اپنے علاقے میں پہنچا ہوں تو جماعت اسلامی کا کام کررہا ہوں اس کام سے پورے علاقے کے لوگ خوش ہیں، مولانا ہر خط کا کواب دیا کرتے تھے اس خط کا بھی جواب دیا جواب یہ تھا کہ آپ جماعت اسلامی کا کام نہیں کر رہے اگر جماعت اسلامی کا کام کر رہے ہوتے تو سب سے پہلے آپ کے اپنے گھر والے آپ کے خلاف ہوجاتے، جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی اپنی جماعت کے بیانیے سے واقف تھے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک ایسا کھیل ہے کہ لوگ سیکڑوں ساتھیوں سمیت سیاسی جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں اور بہتر سیاسی فائدے مل جانے پر ساتھیوں سمیت نکل جاتے ہیں۔ کوئی سیاسی جماعت نہیں پوچھتی کہ بھائی آئے کیوں تھے نکل کیوں رہے ہو…
گزشتہ دنوں کسی نے سیاسی بیانیوں کا تجزیہ کیا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے بیانیے میں فرق بتانے کی کوشش کی، عمران خان اور بلاول کا بھی ذکر کیا، دیگر شخصیات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ ہماری نظر میں کوئی فرق نہیں ان سب کے بیانیے میں، سب ہر قیمت پر اقتدار کے لیے بھاگ رہے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ کوئی شمال سے حملہ آور ہے تو کوئی جنوب سے، ان سب کے محسنوں کا ایک گروہ ہے جو ان کے سیاسی بیانیوں کو اقوالِ زریں قرار دے کر معاشرے میں انہیں نجات دھندہ بناکر پیش کرتے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ صادق و امین کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا اور پھر چھین لیا جاتا ہے، عدالتیں فیصلے دیتی ہیں، کبھی اپنے ہی فیصلوں سے رجوع کرلیا جاتا، ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ شتراک اقتدار کے چشمے سے پانی پینا ہے اور چاہتے ہو کہ اقتدار کی دیوی مہربان ہو، کرپشن کے داغ دھل جائیں انتخابات جیتا جا سکے تو پھر گھاٹی سے گزرنا ہوگا، جماعت اسلامی کا بیانیہ یہ نہیں ہے اور نہ ہوگا، بیانیہ یہ ہے کہ دو رنگی چھوڑ دو، اللہ کا رنگ اپنائو، اور ہمارا ساتھ دو، اگر ہماری راہ میں روڑے اٹکائے تو اللہ کے ہاں اپنا جواب سوچ لو، یہ کسی بھی لحاظ سے کمزور بیانیہ نہیں ہے یہی بیانیہ پاکستان کے نظام کے حوالے سے ہے، پاکستان قائم ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ یہاں قرآن و سنت کی حکمرانی ہوگی، عدل ہوگا، انصاف ہوگا، سرکاری ادارے اور ان اداروں کے ملازمین غریب اور بے بس لوگوں کی زمینوں، پلاٹوں اور گھروں پر قبضے نہیں کرسکیں گے وزیر اعظم اور چاروں وزراء اعلیٰ آج ذرا دیکھیں تو سہی کہ کتنے ایسے مقدمات عدالتوں میں برسوں سے زیر التواء ہیں جن پر قبضہ مافیا کے لوگوں کی جائز جائدادیں ہتھیانے کے لیے عدالتی حکم امتناع حاصل کرکے دندنا رہے ہیں، ان میں کتنے ہیں جو برسراقتدار پارٹی کے عہدیدار بھی ہیں اور کتنے ہیں جن کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے… یہ ملک بن سکتا ہے اور سنور سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ یہاں قرآن و سنت کا بیانیہ ہی حکمران ہو۔