بینکوں کی کہانی ابن آدم کی زبانی

298

وطن عزیز کے نامور قلم کار میرے استاد محترم مظفر اعجاز کو کون نہیں جانتا۔ معاشرے کی ہر اکائی پر اُن کی گہری نظر ہے۔ 30 جولائی کو انہوں نے ایک کالم لکھا جو جسارت میں شائع ہوا جس کا عنوان تھا ’’بینکوں کی نئی ڈکیتیاں‘‘ جس میں انہوں نے عوام کو بتایا کہ بینک ہر ماہ ہر صارف سے 50 روپے اس سروس کے وصول کررہے ہیں جو اس صارف نے طلب نہیں کی، جو بڑھ کر 100 روپے ماہانہ ہوگئی۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں 5 کروڑ سے زیادہ اکائونٹ ہولڈرز ہیں جس کے کم و بیش 40 کروڑ بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دستخط مماثل نہ ہونے کے حوالے سے بات کی۔ پبلک ڈیلنگ کے حوالے سے لکھا پھر سسٹم سست چلنا اور آن لائن خراب ہونا اور آخر میں انہوں نے اسٹیٹ بینک کو بھی شامل کرلیا۔ اب ان کی باتوں کو مزید آگے بڑھانے کی ابن آدم کوشش کرتا ہے کیوں کہ عوام کے مسائل کو حل کروانا میری اخلاقی ذمے داری ہے۔ بینکوں کے بھی اپنے مسائل ہیں، ہر بینک اسٹیٹ بینک کے احکامات کی روشنی میں کام کرتا ہے۔ پہلے کے مقابلے میں بینکوں کی کارکردگی بہتر ہوتی جارہی ہے۔ دراصل سب سے برا اور اہم مسئلہ ہے عملے کے رویے کا۔
میرا اکائونٹ جس بینک میں ہے وہاں اکثریت خواتین کی ہے وہاں ایک لڑکی عطیہ بھی ہے جو جانتی ہے کہ میں ایک اینکر، ڈاکٹر اور کالم نگار ہوں، وہ بے حد تعاون کرتی ہے، اُس کے لیے میری دل سے دعا نکلتی ہے۔ بینک منیجر غلام حسین اور نائب قاصد فرید بھی کمال کے انسان ہیں، سب کی رہنمائی کرتے ہیں وہاں چند ایسی بھی ہیں جو سیدھے منہ بات نہیں کرتیں، اگر کوئی صارف جاہل ہے چیک نہیں لکھ سکتا اور وہ ان کے پاس جا کر یہ کہہ دے کہ میرا چیک لکھ دیں تو وہ فرعون بن جاتی یا بن جاتے ہیں۔ ایک اہم مسئلہ اس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب کوئی نیا اکائونٹ کھولنے آتا ہے اس سے گھر کے بل، سیلری سلپ، شناختی کارڈ اصل اور نجانے کیا کیا طلب کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بے روزگار ہے تو کیا اُس کا اکائونٹ بینک نہیں کھولے گا، یہ کون سا قانون ہے، ہر پاکستانی شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اصل شناختی کارڈ پر اپنا اکائونٹ کھول سکے کسی بھی بینک میں۔ سب سے بڑا مسئلہ بینکوں میں کام کرنے والوں کے رویے کا ہے، ہمارا قومی بینک این بی پی میں تو عملے کی بددماغی عروج پر ہوتی ہے ہر شہری کسی بھی بینک سے کھلا (Change) طلب کرسکتا ہے اور بینک اس کی طلب کو پورا کریں مگر ایسا ہر بینک میں نہیں ہوتا۔ میں این بی پی کی ایک برانچ میں گیا ایک خاتون کائونٹر پر موجود تھیں 1000 اور 500 کے نوٹ سامنے رکھے تھے میں نے 5000 کے کھلے کی درخواست کی تو فرمایا اپنے نمبر پر تشریف لے کر آئیں دیکھ نہیں رہے آپ سے پہلے لوگ موجود ہیں میں نے کہا کہ کیا کُھلّے کے لیے بھی ٹوکن کی ضرورت ہوگئی۔ فرمانے لگی تم کیا آسمان سے اُترے ہو! پرانے اور کٹے پھٹے نوٹ کو تبدیل کرنا بھی بینکوں کی ذمے داری ہے، کوئی تو باآسانی یہ کام کردیتے ہیں اور کچھ کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ آج کل حکومت نے کورونا کے حوالے سے جو ایس او پی جاری کی ہے ملک کے تمام بینکوں کو اس نے تو عوام کو ذہنی مریض بنا دیا ہے کچھ قومی بینک جن میں این بی پی شامل ہے اس میں سرکاری ملازموں کی تنخواہیں اور پنشنرز کی پنشن آتی ہے۔ وزیراعظم صاحب، چیف جسٹس ایک دفعہ جا کر وہاں کا حال دیکھ لیں 1 سے 5 تاریخ تک وہاں آپ کو 60 سال سے لے کر 100 سال تک کے مرد و زن یعنی بزرگ لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے نظر آئیں گے، بینک کے اوقات 9 بجے سے شروع ہوتے ہیں اور کام یہ 10 بجے کے بعد شروع کرتے ہیں۔ اُن بزرگوں کو دیکھ کر ابن آدم کا دل روتا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ ہے پانی، بجلی، گیس کے ماہانہ بل کے حوالے سے، پانی کے بل ہر بینک کو وصول کرنے چاہیے مگر ایسا نہیں ہوتا، بس چند برانچ ہیں جہاں پانی کا بل وصول ہوتا ہے۔ اگر آپ بجلی یا ٹیلی فون کے بل کی قسط بنوا کر بینک میں جمع کروانے آئیں تو وہ جمع نہیں کرتے، ہر طرح سے بس اگر پریشان ہے، تو وہ بیچارے عوام ہیں ابھی حال ہی میں ہمارے صحافی دوست شہزاد بٹ نے شیرشاہ سے بتایا کہ جس بینک میں اُن کا اکائونٹ تھا اس بینک منیجر نے بینک بلوایا اور دریافت کیا کہ آپ کیا کاروبار کرتے ہیں، آپ کا ذریعہ آمدنی کیا ہے تو بٹ صاحب نے کہا کہ میں این ٹی این کا حامل ہوں اور حکومت کو ٹیکس ادا کرتا ہوں اور یہ کام آپ کا نہیں ہے۔ یہ کام ایف بی آر کا ہے۔ تو جواب ملا کہ ہمیں اسٹیٹ بینک کی ہدایت آئی ہے۔ آپ ذریعہ آمدنی بتائیں نہیں تو آپ کا اکائونٹ ہم بند کردیں گے اور اس بینک نے ایسے ہی کیا۔ میں اسٹیٹ بینک کی انتظامیہ سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر ایسے عوامی مسائل پر کوئی قانون بنایا جائے تو اس کی میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر تشہیر بھی کی جائے۔ دوسری ایک گزارش ہے کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ ایس او پی کی وجہ سے جو بینکوں کے باہر لمبی لمبی قطار گرمی کی حالت میں لگ رہی ہے ہر بینک وہاں شامیانہ کرسیاں اور پینے کے پانی کا انتظام کریں، مگر سوائے چند ایک کے کوئی بینک بھی ان احکامات پر پابند نظر نہیں آتا۔ ایک اہم چیز پر مظفر اعجاز صاحب نے روشنی ڈالی ہے کہ اگر سسٹم سست چل رہا ہے یا آن لائن سسٹم خراب ہوتا ہے تو وہ صارف جو ایک بھاری رقم اپنے کھاتے میں جمع کروانے آتا ہے وہ یہ رقم لے کر کہاں کہاں پھرے گا۔ ایک اہم خبر اور بھی ہے کہ بینک کے اندر کا عملہ بھی ڈاکوئوں سے ملا ہوا ہوتا ہے، وہ ڈاکو کو خبر دیتے ہیں کہ فلاں آدمی اس رنگ کے کپڑے زیب تن کیا ہوا ہے یہ اس کی گاڑی کا نمبر ہے اس نے بینک سے اتنے پیسے نکلوائیں ہیں اگر آپ نے آدھے پیسے کسی جگہ چھپا بھی دیے تو واردات کے وقت وہ ڈاکو کہتا ہے تم نے 10 لاکھ بینک سے لیے تھے یہ 5 لاکھ ہیں باقی کے کہاں ہیں۔ یعنی اس ڈاکو کو پوری رپورٹ ہوتی ہے۔ خیر میں نے تو عملے کے رویے پر اور مسائل پر تھوڑی روشنی ڈال دی ہے باقی کام تو حکومت کا ہے۔