کراچی (رپورٹ/ محمد علی فاروق) مسلم لیگ (ن) میں واقعی جمہوریت نہیں ہے ،بے شعور عوام اپنا ووٹ تنظیم کے سربراہان کی جانب سے دی جانے والی لالچ پر متفق ہوکر ان کے حق میں دے دیتے ہیں اسی لیے پارٹی سربراہ اپنے آپ کو کارکنان کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا، نواز شریف کا بنیادی طور پر جمہوریت یا ووٹ کی عزت سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیںہے وہ بادشاہت چاہتے ہیں‘ سول بیورو کریسی پر مکمل کنٹرول کرنے کے بعد انہوں نے فوج کو کنٹرول کرنے کا آغاز کر دیا تھا ۔ تمام بڑی بڑی جماعتیں پاکستان کے بڑے مسائل پر ایک ہیں بنیادی طورپر یہ سب جماعتیں موروثیت کی قائل ہیں،مسلم لیگ (ن) ووٹ کو عز ت دو کا نعرہ لگا کر اپنی نااہلی اور کرپشن کو اس کے پیچھے چھپا نے کی کو شش کر رہی ہے ،پہلے یہ جماعتیں اپنی اپنی جماعت میں ووٹ کو عزت دیں بعدازاں باہر ووٹ کو عزت دینے کی بات کریں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر راشد نسیم ، معروف تجزیر نگار ، نواز شریف کے سابق مشیر نصرت مرزا اور ڈی ایچ اے صفہ یو نیورسٹی سے وابستہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کی ماہر پروفیسر سدرہ احمد نے جسارت سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر راشد نسیم نے کہا کہ پاکستان میں نواز لیگ ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی جماعت کے تنظیمی انتخابات کرانے سے کتراتیں ہیں نوازلیگ چونکہ ووٹ کو عزت دوکا نعرہ لگا تی ہے اس لیے اس کے لیے لازم ہے کہ یہ اپنی جماعت میں انٹر ا پارٹی انتخابات کے دور سے بھی گزرے ، پاکستان کی تمام بڑی بڑی جماعتیں پاکستان کے بڑے بڑے مسائل پر ایک ہیں، مثال کے طور پر ورلڈ بینک کا مسئلہ یا آئی ایم ایف اور توہین رسالت کا معاملہ ہویا سود کے مسائل ،شراب کی بندش کے لیے قانون سازی کی قرار داد تو ایک غیر مسلم رکن اسمبلی نے پیش کی اس کے باوجود یہ سب جماعتیں ایک ہوگئیں اور انہوںنے ان مسائل پر اس کی مخالفت کی۔ اسی طرح یہ سب جماعتیں تنظیمی انتخابات کے مسئلے پر بھی ایک ہیں اور ان کی پارٹیوں میں نہ تو تنظیمی انتخابات ہوتے ہیںاور نہ ہی یہ جماعتیںتنظیمی انتخابات کر انے میں دلچسپی لیتی ہیں بنیادی طورپر یہ سب جماعتیں موروثیت کی قائل ہیں ان کی لیڈر شپ وراثت کی مرحون ملت ہے ۔ راشد نسیم نے کہا کہ گزشتہ سالوں میں پلڈاٹ (پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی) کے ادارے کے ایک سروے کے مطابق بھی صرف جماعت اسلامی ہی ملک کی واحد جماعت ہے جس میں تنظیمی لحاظ سے باقاعدہ انتخابات کے ذریعے ہی تبدیلی لائی جاتی ہے، جماعت اسلامی میں رنگ ونسل سے بالا تر ہوکر جماعت کی امارت کے لیے سربراہ کا چنا ؤ کیا جاتا ہے، جماعت اسلامی کے پہلے سر براہ مولانا مودودی رح اللہ اردو زبان بولنے والے تھے جبکہ دوسرے امیر جماعت میاں طفیل محمد مرحوم پنجابی اسپیکنگ تھے اسی طر ح تیسرے امیر جماعت قاضی حسین احمد مرحوم پشتو زبان بولتے تھے جبکہ چوتھے امیر جماعت سید منور حسن مرحوم اردو اسپیکنگ کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے، حالیہ امیر جماعت سراج الحق پشتو زبان بولتے ہیں ان سب کا انتخاب ارکان جماعت براہ راست ووٹ کے ذریعے کر تے ہیں ۔راشد نسیم نے کہا کہ جماعت اسلامی میں ارکان جماعت امیر کے انتخاب کے وقت اللہ کا خوف ( تقویٰ) اور اس شخص کی ماہرانہ صلاحیت کو دیکھتے ہیں،جماعت اسلامی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں میں شخصیت پرستی اور موروثی سیاست کار بند ہے، اس پہلو سے یہ بات درست ہے کہ جو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا رہے ہیںوہ سب سے پہلے اپنی جماعت میں انتخابات کر اکر ووٹ کی عزت کو بحال کریںپھر ہی ان کی بات کی اہمیت ہوگی اسی طرح پیپلز پارٹی تحریک انصاف اور دیگر جماعتوںکو بھی اپنی اپنی جماعت میں تنظیمی انتخابات کرانے چاہییں پہلے اپنی جماعت میں ووٹ کو عزت دیں بعد ازاں پاکستانی سیاست میں ووٹ کو عزت دینے کی بات کریں۔ نصرت مرز ا نے کہا کہ نواز شریف کا بنیادی طور پر جمہوریت یا ووٹ کی عزت سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیںہے ایک دن نوائے وقت کے ایڈیٹر مجید نظامی مرحوم کے ساتھ نواز شریف سے ملاقات کرنے گئے تو وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں ہمارا انتظار کر رہے تھے اس کمرے میں بائیں جانب دیوار پر مغل بادشاہوں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں ، مجید نظامی مرحوم نے نوٹس لیتے ہوئے نواز شریف سے کہا کہ مغل بادشاہوںکے ساتھ ایک خالی جگہ کیا آپ کے لیے مختص کی گئی ہے تو اس بات پر محفل خوشگوار ہوگئی اور بات خوش گپیو ں میں ہی دب گئی، نصرت مراز نے کہا کہ نواز شریف بادشاہت چاہتا ہے اور وہ اس کے لیے گراؤنڈ بھی ہموار کر چکا تھا سول بیوروکریسی پر مکمل کنٹرول کرنے کے بعد اس نے فوج کو کنٹرول کر نے کی کو ششیں کرنا شروع کر دی تھیں، سابق جنرل چیف آف آرمی اسٹاف آصف نواز مرحوم نے ایک بار بہت غصے میں مجھ سے کہا کہ نصرت نواز شریف فوج کو تباہ کرنا چاہتا ہے ، میں نے ان سے کہا جنرل صاحب ایسی کیا بات ہوگئی تو انہوں نے کہا کہ ایک بار میاں شریف نے کھانے پر بلا یا اور مجھے کہا کہ میرے 3 بیٹے نہیں بلکہ 4 بیٹے ہیںاور میرے بیٹے نواز شریف نے مجھ سے بی ایم ڈبلیو مانگی ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کو بی ایم ڈبلیو دینے سے قبل آپ کو بی ایم ڈبلیو دی جائے بعد ازاں میاں شریف نے میرے گھر بی ایم ڈبلیو کی چابی بھجوادی جو کہ صبح سویرے ان کو شکریہ کے ساتھ واپس کر دی گئی ۔ نصرت مرز ا نے کہا کہ جنرل صاحب کا کہنا تھا نواز شریف فوج کو خریدنا چاہتا ہے اورنواز شریف سے رابطے میں رہنے والے فوجی افسران بھی اپنے افسران کا حکم نہیں مان رہے تاہم فوج میں ایسے افسران کے خلا ف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے ، جبکہ امریکا کے ذریعے دباؤ بڑھا یا کہ پاکستان میں مارشل لا نافذ کردیا جائے اور شاید جنرل صاحب اس دباؤ کے باعث ایسا فیصلہ کر بھی لیتے مگر اس سے قبل ہی ان کو شہید کر دیا گیا ، اس تمام قصے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف بادشاہت کے لیے کو ششیں کر رہا تھا ا س کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ڈی ایچ اے صفہ یو نیورسٹی سے وابستہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کی ماہر پروفیسر سدرہ احمد نے کہا کہ مسلم لیگ نواز ہی نہیں بلکہ پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کی جماعتوں میں ایک مخصوص ٹولہ تنظیمی سیاست اور پالیسی کو اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے، پاکستان کی بڑی جماعتیں مسلم لیگ ( ن) ، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف میں یہی لوگ پارٹی کی قیادت کر تے ہیں یہ افراد پارٹی سیاست اور پالیسی بنانے کے حق دار بھی سمجھے جاتے ہیں اسی لیے 70سال گزرنے کے باوجود پاکستان میں جمہوریت اجنبی ہے، پاکستانی معاشرہ ابھی سیاسی طور پر اتنا با شعور نہیں ہوا کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت کو ناگزیر سمجھیںاوراس کے طابع ہو سکیں اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ پاکستان ایک نیم خواندہ یا جاہل معاشرے کی عکاسی کر تا ہے، ایسے معاشرے میں رائے ذات ، برادری ، اور مفادات پر دی جاتی ہے ، تنظیموں میں نظریہ ، کردار ، اور خصوصیات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ، جاہل معاشروں میں جمہوری طرز فکر نہ ہونے کے برابر ہوتو پھر طاقت ور طبقہ ہی سیاست کرنے کامجاز سمجھا جانے لگتا ہے اور اس کے حق کو تسلیم کر لیا جاتا ہے وہ اپنے ماتحت افراد پر حق حکمرانی قائم کر لیتا ہے، پروفیسر سدرہ احمد نے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں عوام کی اکثریت جماعتوں کے سربراہان کو بادشاہ سمجھتے ہیں ان کے خلاف بات کرنے اور ان سے سوال کرنے سے بھی کتراتے ہیں ، بے شعور عوام تنظیم کے سربراہان کی دی جانے والی لالچ پر متفق ہوکر اپنا ووٹ ان کے حق میں دے دیتے ہیں ، اس لیے جماعت کے سربراہان کو کسی قسم کی کو ئی فکر لاحق نہیں ہوتی کہ وہ انٹرا پارٹی انتخابات پر زور دیں یہی وجہ ہے کہ پارٹی سربراہ اپنے آپ کو کارکنان کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا اور نہ ہی ووٹر اپنے رہنماؤں سے سوال کر نے کا اپنے آپ کو اہل سمجھتے ہیں، تمام سیاسی جماعتیں جدت پسند تصور کی جاتی ہیں لیکن مسلم لیگ ن کا ایک مخصوص انداز ہے جس کے تحت وہ الیکشن کمپین چلا تی ہے ان کے تنظیمی ڈھانچے کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ ابھی تک ان کی تنظیمی پالیسی دقیا نوسی اور فرسودہ نظام کے تحت چلا ئی جارہی ہے ، یہی طرز فکر عوام کو شخصیت پرستی پر مائل کر تا ہے اور تنظیمیں شخصیت پرستی کے گرد گھومتی رہتی ہیں، مسلم لیگ ن ووٹ کو عز ت دو کا نعرہ اور ریاستی اداروںکو تنقیدکا نشانہ بنا کر دراصل اپنی نااہلی اور کرپشن کو اس کے پیچھے چھپا نے کی کو شش کر رہی ہے۔