اسلام آباد (اسٹاف رپورٹر) چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور ( سی پیک) کے مرکزی منصوبے گوادر اور مکران میں بجلی بحران اور کورونا وبا نے تباہی مچا دی ہے۔ بجلی نہ ہونے کے باعث صنعتیں بند ہو گئیں، جس کے باعث لاکھوں لوگ بےروزگار ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ملک کی ترقی چاہتے ہیں مگر افسر شاہی اس ترقی اور مسائل کے خاتمے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ چین اور جرمن کمپنیوں کے ساتھ سستی بجلی کے معاہدے ہونے کے باوجود ان اہم منصوبوں پر کام شروع نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ بات ایف پی سی سی آئی کے سابق نائب صدر اور گوادر چیمبر کے صدر نوید جان بلوچ نے ایف پی سی سی سی آئی کے سابق صدر میاں انجم نثار، چیئرمین کیپٹل آفس قربان علی ، کوآرڈینیٹر مرزا عبدالرحمن، سینیٹر ڈاکٹر محمد اسماعیل بلیدی اور سینیٹر نصیب اللہ بازئی کے ہمراہ ایف پی سی سی آئی کے کیپٹل آفس اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے ۔ گوادر ایک اہم منصوبہ ہے مگر کچھ مسائل ہیں جنہیں حل کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ حکومت پاکستان ایران سے بجلی خرید کر گوادر کو دیتی ہے جو نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں جو اب ایران نے منقطع کردی ہے۔ گوادر میں بجلی نہ ہونے سے فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں سب سے زیادہ فشریز اور برف کی فیکٹریاں متاثر ہوئی ہیں۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین اور ماہی گیربھی بڑے پیمانے پر بےروزگار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجلی نہ ہونے سے پانی کا مسئلہ بھی سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ حکومت نے ایران سے بجلی کے حوالے سے معاہدہ بھی کیا ایران نے تین ماہ میں پاکستانی سرحد تک بجلی کی لائن بچھا دی مگر پاکستان کی جانب سے تاحال کام شروع نہ کیا جا سکا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ گوادر میں پانی و بجلی سمیت دیگر مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے ورنہ گوادر کے بغیر سی پیک منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گوادر جیسے اہم علاقے کو بجلی سے محروم رکھنا پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سے امید ہے کہ وہ ایرانی سفیر سے ملاقات کرکے اس مسئلہ کے حل کے لیے اقدامات اٹھائیں گے کیوں کہ گوادر پورٹ فعال ہو چکا ہے مگر سہولیات نہ ہونے کے باعث بےرون ممالک کے سرمایہ کار بھی یہاں سرمایہ کاری سے کترا رہے ہیں۔گوادر کو ملک کے بڑے شہروں خاص کر وسطی پنجاب سے منسلک کیا جائے تاکہ سی پیک اور گوادر پورٹ کامیاب ہو اور کراچی پورٹ پر بوجھ کم ہو سکے۔