سر پر خیالِ یار کی چادر اْوڑھنے والے لوگ

451

مْنحنی جسم کا یہ دْبلا پتلا انسان، اتنے فولادی عزم اور ایمان کا مالک ہو گا، اس کا پوری طرح ادراک مجھے بھی نہ تھا۔ اگرچہ وہ اور میں ایک دوسرے کے قریبی عزیز بھی ہیں اور ایک ہی اسکول میں پڑھے بڑھے بھی تھے۔
وہ تعلیمی میدان میں مجھ سے تین سال آگے تھے مگر اب جب میں مْڑ کر دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ، ایمان و عمل کی دنیا میں وہ مجھ سے برس ہا برس آگے ہیں۔
حافظ محمد ادریس صاحب نے 1963 میں ہمارے گاؤں کے ادارے ملت ہائی سکول چنن سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور میرٹ بورڈ پر اپنا نام ثبت کروایا۔ میں اس وقت آٹھویں کلاس میں پروموٹ ہو چکا تھا۔ اپنی خوبیوں کے باعث وہ صرف میرے لئے ہی نہیں، سکول کے سارے ہی طلبہ کے لئے آئیڈیل تھے۔
پھر وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ہر سطح کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا، بالآخر پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ دھیمے لب و لہجہ کے اس سادہ سے نوجوان کو اللہ نے کمال درجے کا حافظہ، خوش اخلاقی اور ایمان و یقین کی یکسوئی عطا کر رکھی تھی، جمیعت کا پلیٹ فارم بھی میسر تھا،اس نے یونیورسٹی کے طلبہ کی قیادت سنبھالی اور یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا صدر منتخب ہو گیا۔
معا’’ایک نا خوشگوار واقعہ نے اس کے ایمان و یقین کو آزمائش میں ڈال دیا۔ یونین انتخاب میں واضح برتری کے باوجود وائس چانسلر صاحب نتائج کے اعلان میں ہچکچاہٹ کا اظہار کر رہے تھے ، کچھ طلبہ نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، وی سی صاحب کے گھر پہنچ کر ہنگامہ کر دیا۔
جنرل یحیی کے مارشل لا کا دور تھا۔ حکومت نے حافظ ادریس صاحب سمیت جمیعت کے کئی کارکنان کو گرفتار کرکے سمری ٹرائل کرتے ہوئے سزا سنائی اور حافظ صاحب سمیت کئی دیگر ساتھیوں کو جیل بھجوا دیا۔ ادھر جمیعت کی قیادت بھی حرکت میں آئی اور اِس غلطی پر حافظ صاحب سمیت کئی اہم ارکان کا جمیعت سے اخراج کر دیا گیا۔
اس فیصلے نے حافظ ادریس صاحب کو آزمائش کے ایک عجیب دوراہے پہ لا کھڑا کیا۔ عمر امنڈتے جذبات سے بھر پور ہو، آدمی اسٹوڈنٹس یونین کا نیا نیا صدر منتخب ہوا ہو، سرکار نے اسے جیل بھیج دیا ہو اور اسے خبر ملے کہ اس کی اپنی ہی تنظیم نے اسے تنظیم سے خارج کر دیا ہے، تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان بپھرے ہوئے جذبات میں شیطان کیسی آگ لگا سکتا ہے۔
مگراضطراب اور ہیجان کے اس دوراہے پر کھڑے اِس نوجوان نے ‘‘اپنے اخراج ‘‘ کی خبر سنتے ہی کمال ثبات اور سکون کا اظہار کیا اور جیل سے خط لکھا
‘‘ جمیعت میری ماں ہے، اس نے مجھے باہر نکالا ہے مگر میں ماں سے جدا نہیں ہوا، کسی کو یہ شائبہ تک نہیں گزرنا چاہئے کہ جمیعت سے میری وابستگی میں کبھی کوئی دراڈ آ سکتی ہے’’
یکسوئی اور کامل یقین سے بھر پور اس خط نے کتنے ہی دلوں کو شبنم کی سی ٹھنڈک پہنچائی اور نہ جانے کتنی ہی کھْلی زبانوں کو تالے لگا دیے۔
استقامت ، رب پہ کامل یقین اور ثبات و سکون کی یہ کیفیت ایک بار پھر اس شخص کے چہرے پہ اْْس وقت نمودار ہوئی جب وہ اپنے عزیز ترین بیٹے ڈاکٹر ہارون ادریس کی تدفین کے لئے جنازے کی امامت کے لئے کھڑا تھا۔ حوصلے کا یہ پہاڑ بظاہر ہزاروں سوگواروں سے مخاطب تھا مگر اصل میں اپنے رب سے کہہ رہا تھا۔
’’ تیرا یہ بے بس حقیر بندہ تیری مصلحتوں کو نہیں جانتا، تو نے میرے بڑھاپے میں ہیرے جیسا میرا بیٹا واپس اپنے پاس بلا لیا۔ میں تیرے فیصلوں اور حکمتوں پہ راضی ہوں۔ میرے مولا، جس میں تیری رضا نہیں اْس میں میری رضا نہیں‘‘
عزیزم ہارون ادریس بہت ہی ہونہار اور باوقار نوجوان تھا۔ جرمنی سے پی ایچ ڈی کر کے بغیر کسی تذبذب کے فوراً وطن واپس لوٹ آیا اور سرگودھا یونیورسٹی کو جوائن کر لیا۔ اس کی گفتگو میں گہرائی اور سنجیدگی اور اس کے کردار میں سادگی اور وقار تھا۔
کورونا کے باعث اس کے پھیپھڑے متاثر ہوئے تو اسے ہسپتال داخل کروا دیا گیا۔ طبیعت بہتر ہوئی، پھر بگڑ گئی۔ تکلیف اور آزمائش کی یہ مدت باپ اور بیٹے دونوں نے بڑے حوصلے اور ضبط سے گزاری۔ میں جب بھی عزیزم ہارون کی صحت کا پوچھتا، محترم حافظ صاحب سے جواب ملتا ‘‘ اللہ کا شکر ہے، اس کی طبیعت بہتر ہو رہی ہے۔ آپ دعائیں جاری رکھیں’’
میری بد قسمتی کہ میں عزیزم ڈاکٹر ہارون کے جنازے میں شرکت سے محروم رہا۔ اْس کی وفات کی افسوس ناک خبر ملی تو میں اَپر دیر کے علاقے کْمراٹ میں تھا۔ کوشش بھی کرتا تو پہنچنا ممکن نہ ہوتا۔
مجبوراً اپنے عزیز دوست چوہدری اخلاق احمد کے ذریعے محترم حافظ ادریس صاحب تک تعزیتی پیغام بھجوایا دیا۔
اخلاق بھائی بھی چند ہی ماہ قبل اپنے جواں سال بیٹے کو اپنے ہاتھوں دفنا چکے تھے۔عزیزم فجر اخلاق جو حصول علم کے لئے آسٹریلیا گیا تھا، کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر سڈنی ہی میں اپنے رب کے پاس پہنچ گیا اور اخلاق صاحب نے آسٹریلیا پہنچ کر وہیں اسے اپنے ہاتھوں رب کے حوالے کر دیا۔
صبر اور تسلیم و رضا کا تذکرہ تحریر و تقریر میں کرنا ہو تو بہت آسان اور قدرے دلچسپ بھی لگتا ہے مگر انسان کو اس ابتلاء￿ اور آزمائش سے خود گزرنا ہو تو کم کم لوگ ہی چٹان کی طرح مضبوط کھڑے رہ سکتے ہیں۔ کڑی دھوپ میں کھڑے ہو کر اپنے دوست رب کو خوشی خوشی اپنی قیمتی متاع حوالے کرنا کسی ابراھیم خلیل اللہ کے پیروکار ہی کا کام ہو سکتا ہے، ہم جیسے کسی ہما شما کا کام ہر گز نہیں۔ رب سے یاری اور دوستی میں گْم رہنے والے ایسے ہی لوگ زیرِ لب گنگناتے رہتے ہیں۔
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں