شام : اثر رسوخ بڑھانے کی دوڑ ، روس اور ایران میں سخت مقابلہ

116

دمشق (انٹرنیشنل ڈیسک) شام میں روس اور ایران کے درمیان دوڑ لگی ہوئی ہے، جو اقتصادی، سیاسی، عسکری، سماجی اور ثقافتی شعبوں سمیت مختلف میدانوں میں جاری ہے۔ جنوری کے اواخر میں فارسی زبان کو شام کے تعلیمی نصاب میں دوسرے اختیاری مضمون کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ اس سے چار سال قبل روسی زبان کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جا چکا ہے۔ روس اور ایران کے درمیان دیگر اہم شعبوں میں بھی مسابقت جاری ہے۔ ان میں سیاست اور زمین پر عسکری نفوذ شامل ہے۔ روسی خارجہ امور کی ماہر اور سیاسی تجزیہ کار موہدان سیگلم کا کہنا ہے کہ ماسکو اور تہران آستانہ مذاکرات کے ذریعے سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ ان دونوں کے اپنے طور پر شامی حکومت کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔ تاہم یہ دونوں ممالک بعض فوری حکمت عملیوں کے حوالے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ موہدان نے مزید کہا ہے کہ مسابقت کی صورت حال کے باوجود یہ ان دونوں کے تعلقات پر بہت زیادہ اثر انداز نہیں ہو گی۔ بالخصوص جب کہ اختلافی حکمت عملی کا تعلق قصیر المدت اقتصادی مفادات سے ہے۔ اسی لیے روس اور ایران کے درمیان شام اور اس کے موجودہ صدر کے مستقبل کے حوالے سے اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ خاتون تجزیہ کار کے مطابق ماسکو اور تہران دونوں ہی اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے شام میں مقامی جماعتوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ بالآخر دونوں ہی فریق ایک دوسرے کو عایتیں پیش کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ادھر روسی اکیڈمک اور سیاسی تجزیہ کار اکبال درہ کا کہنا ہے کہ روس اور ایران کے درمیان شام میں مسابقت کا پہلو طویل عرصے سے موجود ہے، یہاں تک کہ سابق سوویت یونین کے دور میں بھی ماسکو اور تہران مختلف میدانوں بالخصوص معاشی شعبے میں ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں۔ اگرچہ دونوں ہی دمشق اور بشار کے حلیف ہیں، تاہم تہران نے زمینی طور پر زیادہ نمایاں عسکری کردار ادا کیا ہے، جس کے سبب آج فریقین کے درمیان شدید مسابقت نظر آ رہی ہے۔