’’فلسطین، اخوان المسلمون اور حماس‘‘

415

آخری حصہ

حماس اوروں کی عیاری کے نرغے میں: حالانکہ صہیونی اسرائیلی اخبار ’’ہارٹس‘‘ کی شائع کردہ ایک خبر کے مطابق اسرائیلی فوج اور اسرائیلی انٹیلی جنس نے ایک تجویز پیش کی کہ حماس کو تباہ و برباد کرنے کے لیے تحریک حماس کی زیرِ نگرانی میں جاری و ساری تمام تعلیمی ادارے، ہیلتھ کلبس، رفاہی اداروں کو بند کردیا جائے، اور اس کی دیگر تنظیموں اور ’’الجمعیۃ الخیریتہ‘‘ جیسے اداروں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے۔ یعنی باطل کے دل میں مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی اجتماعیت کا کتنا خوف ہوتا ہے، جس کا اظہار موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی کیا ہے کہ جب تک خطے کے ممالک اسرائیل کے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر وجود کو تسلیم نہیں کرتے اس وقت تک دیرپا امن قائم نہیں ہو سکتا۔
تاریخ شاہد ہے کہ باطل کو حق ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اس کی مثال جو بائیڈن کا حالیہ بیان ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کا اعلان ہے کہ وہ غزہ میں بحالی اور تباہ شدہ ڈھانچے کی ازسرِ نو تعمیر کے لیے حماس کے بجائے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ خیال رہے کہ غزہ حماس کے زیرِ اثر ہے جب کہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کا اثر و رسوخ ہے۔
متحدہ عرب امارات نے بھی توتے کی رٹی رٹائی بولی کے ذریعے اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ کو براہ راست امداد فراہم کرنے اور تعمیر نو میں مدد کرنے کی پیش کش کرتے ہیں بشرطیکہ حماس کا تعمیر نو میں کوئی کردار اور حصہ نہ ہو اور حماس مداخلت نہ کرے۔ یہ ساری باتیں اس بات کا ثبوت ہیں حماس سے باطل قوتوں کے ساتھ ہمارے اپنے بھی خائف ہیں۔
ہم دنیا میں ایک تبدیلی دیکھ رہے ہیں کہ ساری دنیا ایک global village بن گئی ہے تو یہ اسی نور توحید کے اتمام کی تیاری ہے جو مشیت خداوندی کے ذریعے کی جارہی ہے اور یہ نیا عالمی نظام New World Order کا نعرہ ہے، یہ اصلاً صہیونی عالمی نظام (Zionist World Order) کا نعرہ ہے جس نے پوری دنیا کو بالعموم اور امت مسلمہ کو بالخصوص اپنے شیطانی نرغے میں لے رکھا ہے، مگر حقیقت میں اسلام کا منصفانہ نظام آنے والا ہے۔ ارشاد نبوی میں پوری انسانی تاریخ کو پانچ ادوار میں منقسم کیا گیا ہے جس کی ابتداء نبوت و رحمت اور جس کی انتہا خلافت علیٰ منہاج النبوہ ہے۔
اہل ایمان کے لیے غلبہ اسلام کی بشارت: غلبہ دین کی بشارت کے ضمن میں واضح احادیث موجود ہیں۔ ایک تو وہ حدیث ہے جو مسند احمد میں موجود ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’دنیا میں نہ کوئی مکان باقی رہے گا نہ کوئی خیمہ، جس میں اللہ اسلام کو داخل نہیں کرے گا‘‘۔ دورِ حاضر کے اس مرحلے پر غلبۂ دین کی بشارتوں کی تکمیل کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے خوش نصیب افراد کے بارے میں بھی نبی کریمؐ سے بڑی خوش خبریاں منقول ہیں۔ مثلاً آپؐ نے فرمایا: ’’میری اْمت میں میرے ساتھ سب سے زیادہ محبت رکھنے والے لوگ میرے بعد ہوں گے، ان میں سے کوئی تمنا کرے گا کہ کاش! اپنے اہل وعیال کے بدلے مجھے دیکھے‘‘۔ ایک موقع پر نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’کاش! میں اپنے بھائیوں کو دیکھ پاتا، انہیں میرا سلام پہونچا دو۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، ہم آپؐ کے بھائی نہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’انتم اصحابی‘ تم تو میرے دوست ہو، میرے بھائی تو وہ ہیں جو بعد کے زمانے میں آئیں گے‘‘۔ ایسے نامساعد حالات میں وہ لوگ غلبہ اسلام کی سعی و جہد کریں گے کہ اسلام پر چلنا ہاتھ پے انگارے لے کر چلنے کے مترادف ہوگا۔ بشارتوں کی تاریخ میں یہ پہلو بڑا عبرت ناک ہے کہ مسلمانوں میں بعض گروہ صرف بشارتوں کو بیان کریں گے، ان اوصاف کو اپنے اندر پیدا نہیں کریں گے جو غلبہ ٔ دین کے لیے مطلوب ہیں۔ ایک گروہ غلبہ اسلام کی عملی صورت کے ساتھ میدان جہاد میں حصہ لے گا اور لعن طعن کرنے والے کی پروا کیے اپنی مزاحمت و جہاد فی سبیل اللہ کو جاری و ساری رکھے گا۔ سورہ المائدہ میں اللہ فرماتا ہے ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو۔ اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے تو پھر جائے، اللہ دوسرے بہت سے ایسے لوگوں کو پیدا کردے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اْن کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے‘‘۔
سادگی اپنوں کی تو دیکھ: آج ہم اگر ہمارے مسلم معاشرے میں نظر دوڑائیں تو ایک گروہ ہمیں نظر آئے گا جو عملی جہاد فی سبیل اللہ کرنے والوں پر لعن طعن کا سلسلہ جارہی رکھے ہوئے ہیں، انہیں قابلِ ملامت ٹھیرایا جارہا ہے۔ ان کی سرگرمیوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے۔ ان کے عقیدے و ایمان کو مشکوک بنایا جارہا ہے۔ انہیں ہی باطل قوتوں کا آلہ کار بتایا جارہا ہے۔ خدارا! ان تحریکات کی داستان عزیمت کا کھولی آنکھوں سے جائزہ لو، ان شاء اللہ! حقیقت آپ پر عیاں ہو جائے گی۔
آئر لینڈ کے چیف ربی ڈیوڈ روزن اسرائیل کی چیف ربائیٹ یعنی مذہبی امور کے رکن ہیں اور امریکی جیوش کونسل (اے جے سی) کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، یہ واشنگٹن میں طاقتور ترین لابی ہے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حماس کا رویہ کسی بھی طرح امن مساعی میں رکاوٹ نہیں ہے۔
اللہ کے واسطے اب تو حماس کے عقیدے و ایمان اور خلوص و للہیت پر الزام نہ لگاؤ، کچھ تو اللہ کا خوف رکھو۔ پٹرو ڈالر نے تو حق کو حق اور باطل کو باطل قرار دینے کے قابل بھی نہ رکھا۔ کم از کم شعائر اللہ اور شعائر اسلام کی حرمت، اللہ کے معبود خانوں، لٹتی ہوئی عفت مآب ماؤں و بہنوں کی عصمت اور معصوم شہید ہونے والے بچوں کی حرمت کا تو پاس و لحاظ رکھو۔ اللہ کے لیے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤ۔ کیونکہ اللہ کا لشکر غالب ہونے کے لیے ہی آیا ہے۔ اسلام کے اعلیٰ مقاصد و عزائم کے لیے کام کرنے والی نظریاتی تحریکوں کو ابتلاء و آزمائش کے مرحلوں یعنی زندانوں، دار و رسن، آل و اولاد کی قربانیاں، رشتہ داروں کی قربانی، مال و دولت کی قربانیاں، حجرت کے مراحل، مفلسی و جلاوطنی، دشمنوں کی نفرتیں اور اپنوں کی طعن و تشنیع کی سعوبتوں کو انگیز کرنا ہی پڑتا ہے۔ میرے نزدیک آزمائش اپنی دعوت و جہاد کی کارکردگی کو ناپنے کا پیمانہ ہے۔ الحمدللہ! حماس نے عزیمتوں کی داستانیں رقم کرتے ہوئے ان سارے مراحل کو طے کرکے فتح و نصرت کے دروازے تک پہنچ گئی ہے۔ ان شاء اللہ! فتح و نصرت اہل ایمان کا مقدر ہوگی۔