سید منور حسن ؒ ۔۔ استقامت کا پیکر – سینیٹر سراج الحق

292

سید منور حسن صاحب کے سانحہ ارتحال کو ایک سال گزر گیا۔ سید منورحسنؒ صاحب جماعت اسلامی کے پہلے امیرتھے جو اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ بھی رہے ۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ62ء میں منسلک ہوئے جو میری پیدائش کا سال ہے ۔اسی طرح وہ پہلے امیر جماعت تھے جن کواسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی دونوں میں بطورکارکن اور بطور قائد (ناظم اعلیٰ اور امیر جماعت) کام کرنے کا موقع ملا ۔سید منورحسن ؒ بے انتہا صلاحیتوں کے مالک تھے ۔ہمیشہ تنظیم پر فوکس کرتے اور اس کے استحکام پربھرپور توجہ دیتے ۔تقویٰ ،للہیت اور نبی کریم ؐ کے ساتھ محبت ان کی تقریروں کے مستقل موضوعات تھے ۔سید مودودیؒ کے لٹریچر کو انہوں نے نہ صرف پڑھا تھا بلکہ ان کی تقریروں میں اس کے اثرات نہایت نمایاں رہتے تھے۔وہ لوگوں کے ساتھ ذاتی تعلقات اور اپنے عہدکے لوگوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔جب بھی پشاور آتے تھے تو جماعتی مصروفیات سے فارغ ہوکر وارث خان ایڈووکیٹ کے ہاں قیام کرتے تھے جو ان کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے ۔

سید منورحسن صاحبؒ نظم و ضبط اور وقت کے پابند تھے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی دن بھر کی مصروفیات اور دورہ کا شیڈول جس طرح کاغذ پر ہوتاتھا ،اسی طرح اس کی پابندی کرتے تھے اوردوسروں سے بھی کرواتے تھے۔  میں نے ان کے ساتھ نائب امیرجماعت اسلامی پاکستان کے طور پرکام کیا۔خود ہی ایک دن ازراہِ مذاق فرمانے لگے کہ ‘نائب امیر تو بہت بے بس ہوتا ہے اور اس کے پاس کوئی اختیارنہیں ہوتا’ ،  اسی طرح مسکرا کرفرمایا کہ آپ کی بے بسی پر مجھے ترس آتا ہے۔

ہم نے اکٹھے ملک بھر کے دورے بھی کیے ۔ایک بار کوہاٹ کے اجتماع ارکان میں شریک تھے ۔ مجھ سے پوچھا کہ ‘یہاں کیا بات کرنی ہے’ میں نے عرض کیا کہ یہاں تنظیمی مسائل ہیں، ارکان کے درمیان مسائل ہیں،بیت المال کمزور ہے اور پوری جماعت ایک دائرے میں گھوم رہی ہے۔ان کی تقریر سے پہلے امیر ضلع نے اجتماع میں انہی تینوں موضوعات پر بات کرتے ہوئے ارکان جماعت کو خوب لتاڑا ۔ارکان کو آپس میں تعلقات بہتر بنانے ،بیت المال پر توجہ دینے اور اپنے مخصوص دائروں اور خانقاہوں سے نکل کر کام کرنے کے خوگر بننے کی ہدایات جاری کیں۔اس موقع پرسید منورحسن ؒ نے مجھ سے پوچھا ’’مزید کوئی بات ہوتو‘‘

سید صاحب ؒ پشاور تشریف لائے ،ہم پانچ چھ لوگوں نے ان کا استقبال کیا،دفتر میں بیٹھ گئے۔میرے علاوہ سب نے اپنے اپنے موبائل فون نکالے اور مصروف ہوگئے ۔سید صاحب ؒ نے سب کو دیکھا اور مجھ سے پوچھا ’’ آپ کے پاس موبائل فون نہیں ہے ‘‘اس پروہ سب شرمندہ ہوگئے اور اپنے موبائل فون جیبوں میں ڈال لیے ۔

خواہش کے باوجود سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے میری ملاقات نہ ہوسکی لیکن ان کی کتابوں کی ہر لکیر میں ان کا عکس اور ان کی شخصیت اور مزاج کا اندازہ ہوتا ہے ۔ جس طرح ان کے کسی فقرے میں کوئی کجی نہیں ڈھونڈی جاسکتی، اسی طرح ان کی شخصیت بھی اعلیٰ ظرفی کی ایک مثال تھی۔ان کے لٹریچر نے میرے اور میرے جیسے لاکھوں لوگوں کی زندگیوںکی تبدیلی میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے، جو ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے ۔

مجھے میاں طفیل محمد ؒ صاحب سے بھی نشست و برخاست کا موقع نہیں ملا۔البتہ کچھ پروگراموں میں ان کو سنا،ان سے ہاتھ ملانے کی سعادت نصیب ہوئی ۔خصوصی طور پر ان کے آخری ایام میں جب ان کی بینائی بھی نہیں رہی تھی وہ منصورہ مسجد میں نماز ادا کرنے آتے تھے ،کمزوری کے باوجود بھی وہ استقامت اور خشوع وخضوع کے ساتھ نمازوں میں کھڑے رہتے تھے ۔اگرچہ شریعت نے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی سہولت دی ہے،ہم نے ان کو کبھی سہولت سے استفادہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔کارکن ان کی شخصیت میں سید مودودیؒ کا پورا عکس موجود پاتے تھے ۔جن لوگوں کا ان کے ساتھ ملنا جلنا تھا یا جن کو انہیں قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملاوہ گواہی دیتے ہیں کہ وہ بالکل صاف گو اور سیدھے انسان تھے ،ان کی زبان ہمیشہ ان کے دل کی ترجمان ہوتی تھی۔وہ حاضر و موجود سے بے پروا ہوکر اپنے مؤقف کا اظہار کرتے تھے اور اس پر جمے رہتے تھے ۔

مجھے قاضی حسین احمد صاحب ؒ کے ساتھ ان کے دونوں پیش روئوں کی نسبت زیادہ وقت گزارنے اور ملاقاتوںکا موقع ملا ۔قاضی حسین احمد ؒ صاحب بھی ایک داعی الی اللہ اور مجاہد فی سبیل اللہ تھے ۔قاضی ؒ صاحب جغرافیہ کے گریجویٹ تھے اور دنیا بھر کے ممالک کے حالات و واقعات اور وہاں کی اسلامی تحریکوں کی صورتحال کو اس طرح جانتے تھے جیسے آدمی اپنے ہاتھ کی لکیروں پہچانتا ہے ۔جماعت اسلامی کیلیے باعث افتخار ہے کہ اس زمانے کی سب سے بڑی استعماری طاقت روس کے لیے افغانستان کو قبرستان بنانے اور ان کے نظریات کو پہاڑوں میں دفنانے میں قاضی ؒصاحب کا ایک بڑا کردار رہا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی کو اپنے ایک خاص دائرے سے باہر نکالنے اور عوام الناس تک اپنی دعوت پہنچانے کے لیے وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک محنت کرتے رہے ۔

امیر جماعت کے انتخاب کے بعد 2014ء میں جب میں منصورہ سے دیرجارہا تھا تو راستے میں سیدمنورحسنؒ صاحب کا فون آیا اور پوچھا کہ آپ کہاں ہیں ؟میں نے بتایا کہ میں گائوں جارہا ہوں اور اس وقت اسلام آباد میں ہوں۔انہوں نے فرمایا کہ’’ آپ کو امیر جماعت منتخب کرلیا گیا ہے ،آج سے آپ میرے امیر ہیں‘‘۔ میں اس وقت فرنٹیئرہائوس اسلام آباد میں تھا۔ انہوں نے مجھے اتنی دعائیں دیں جس طرح سفر پر جاتے ہوئے ماں اپنے بیٹے کودعائیں دیتی ہے ۔ جب میں بحیثیت امیر جماعت حلف اٹھانے منصورہ آیاتو انہوں نے جس طرح مجھے حوصلہ دیا اور جس محبت کا اظہار کیا اور دائیں بائیں ساتھ دینے کا اقرار کیا اس سے میری بے انتہاڈھارس بندھ گئی ۔ہم نے ان کو ایک کارکن کے طور پربھی دیکھا اور ایک قائد کے طور پر بھی ، جماعت اسلامی پاکستان کی امارت سے فارغ ہونے کے بعد جب یہ ذمے داری میرے کاندھوں پر پڑی تو انھوں نے مجھ سے کہاکہ اب میری ذمے داری ہے کہ میں ثابت کروں کہ ایک کارکن کیسا ہوتا ہے۔ انھوں نے زندگی کے آخری لمحے تک اطاعت نظم کو ثابت کر کے دکھایا ۔

جس طرح میں نے شروع میں عرض کیا کہ مجھے سید مودودیؒ سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا،اسی طرح مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے معاملات کیسے چلے ،قاضی ؒ صاحب اور میاں ؒصاحب اور پھر قاضی ؒ صاحب اور سید منورحسن ؒصاحب کے آپس کے معاملات کیسے تھے، اسی تناظر میں میں نے سید منورحسن ؒ صاحب سے عرض کیا کہ جماعت کا امیر میں ہوں مگر آپ بدستور میرے امیر رہیں گے لیکن انہوں نے فرمایا کہ امیر ایک ہی ہوتا ہے ۔

ان کی زندگی میں میری شعوری طور پر کوشش رہی کہ ہر فیصلے پر ان سے مشاورت کروں اور ان کی رائے اور رہنمائی سے استفادہ کروں۔ میں کراچی جاتاتو شوریٰ کے ایجنڈے پر ان سے چھوٹی چھوٹی چیزوں پر مشاورت و رہنمائی حاصل کرتا تھا ۔ میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ وہ بذات خود مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاسوں میں شریک ہوں۔ اس لیے میں دعوت نامے کے بجائے خود حاضر ہوکر عرض کرتا تھا یا فون کرکے درخواست کرتاتھا۔الحمد اللہ جب تک ان کی صحت نے اجازت دی وہ شوریٰ میں شرکت کرتے رہے۔

سید ؒصاحب زندگی میں بھی کارکنوں کی تربیت کا ذریعہ تھے اور رحلت کے بعد بھی ان کی زندگی ہمارے لیے تربیت ہی تربیت ہے ۔جماعت اسلامی کے اس گھر کے در و دیوار پر ان کے اثرات ہیں جو کارکنان کے لیے باعث تربیت و رہنمائی ہیں۔مجھے ان کی بیماری کے دوران بھی ان سے ملنے اور بیمارپرسی کی سعادت ملتی رہی۔آخری دنوں میں وہ اسپتال میں تھے،ملنے گیا تو انہوں نے کراچی کے مخصوص لہجے میں پوچھا’’کب آئے ہیں اور کب جانا ہے ‘‘اور پھرملنے پر انتہائی محبت اور خوشی کا اظہار کیا۔

سید منورحسن ؒکے جنازے میں زندگی کے ہرطبقے کی شرکت اور محبت و عقیدت نے یہ ثابت کیا کہ وہ محبتیں بانٹنے والے انسان تھے۔ان مخالفین نے بھی ان کے کردار کی عظمت کی تحسین کی، جنہوں نے کبھی بھی جماعت کے لیے کلمہ خیر نہیں کہا تھا۔ ان کی زبانوں اور قلموں میں بھی سید صاحب کی تعریف کے کلمات تھے ۔نماز جنازہ کے بعد جب ہم نے ان کو سپرد خاک کیا توچند قدم پر پروفیسر غفور احمد مرحوم و مغفور اور دوسرے راہنمائوں کی قبریں تھیں، ہم نے دعا کے لیے ان پر بھی حاضری دی، ایسا لگتا تھا کہ شہر خموشاں میں بھی’’ حلقہ یاراں‘‘ موجودہے ۔ہم جنازے اور تدفین کے بعد سیدؒ صاحب کے گھر پہنچے تو ان کے بیٹے سید طلحہ حسن ا ن کے کمرے میں لے گئے جہاں ان کی دو قراقلی ٹوپیاں، تین جوڑے کپڑے اور دو جوتے اور ایک چپل تھی ،یہی ان کی کل کائنات تھی۔

دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ

ہوجس کی فقیری میں بوئے اسداللہٰی

سید منورحسنؒ نہ صرف پاکستان میں ایک قائد ،مربی ومزکی کی حیثیت رکھتے تھے بلکہ وہ عالمی اسلامی تحریکوں کے بھی لیڈر تھے اور یہ تحریکیں ان سے رہنمائی اور مشورہ لیتی تھیں۔ سید منورحسن ؒحق کو حق اور باطل کو باطل کہنے میں لگی لپٹی نہیں رکھتے تھے ۔حقیقت میں وہ استقامت کے کوہ گراں تھے، وہ افغانستان میں امریکی سامراج، مقبوضہ کشمیر میں برہمن راج اور پاکستان میں آمرانہ قوتوں کے اثر رسوخ کے شدید مخالف تھے۔ وہ آزادی پسند اور حریت پسندتھے آج ان کا ‘گو امریکا گو’ کا بیانیہ حقیقت کاروپ اختیارکرچکا ہے اور ہمارا خطہ تمام استعماری قوتوں کا قبرستان بن گیا ہے ۔