پاکستان، ایران اور ابراہیم رئیسی کی کامیابی کے اثرات

676

پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع زمانہ قدیم سے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے، آج سے ہزاروں سال پہلے بھی، جب یہ خطہ زمین سندھ کہلاتا تھا، اور ہند سے جغرافیائی، تہذیبی، معاشرتی اور سیاسی طور پر ایک علٰیحدہ ملک کی حیثیت سے شناخت کیا جاتا تھا، شمال تا جنوب یہ علاقہ اْس دور میں عالمی تجارت کا اہم ترین راستہ تھا، جسے شاہراہ ریشم کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس تجارتی گزرگاہ کے ذریعے چین و ہند کا تجارتی مال سندھ کی بندرگاہوں کے راستے یمن اور افریقا سے ہوتے ہوئے یورپ تک پہنچتا اور یورپ، افریقا اور عرب کا سامان تجارت اسی راستے ہند و چین تک پہنچایا جاتا تھا۔ اسی طرح ایک راستہ سندھ سے ایران اور ترکی کے ذریعے یورپ پہنچتا۔ چنانچہ اس خطے کو عالمی تجارت میں شہہ رگ کی حیثیت حاصل تھی۔ اِس لیے ہر دور میں اس تجارتی گزرگاہ پر اپنی عملداری قائم رکھنے اور اپنے تجارتی مال کے لیے اسے محفوظ بنانے کے لیے یہ خطہ اپنے زمانے کی عالمی طاقتوں کا مرکز ِ نگاہ رہا ہے۔ بلکہ اس پر دسترس حاصل کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کے در میان پنجہ آزمائی کا میدان بھی رہا ہے۔ شمال میں عظیم چین، شمال مغرب میں افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستیں، مغرب میں ایران اور مشرق میں ہند کی طاقتور ریاستیں اس خطے کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اس پر تسلط قائم کرنے کے لیے باہم دست و گریباں رہی ہیں، وسط ایشیاسے آریائوں کی لہر در لہر آمد، چین کی شمالی علاقوں پر تسلط کی تگ و دو، شمال مغرب سے افغان جنگوئوں کے پے در پے حملے، اور مغرب سے متعدد بار ایرانی و ساسانی لشکر کشی اسی کشمکش کا حصہ تھا، یہاں تک کہ ترک، منگول اور یونانی بھی اِس علاقے پر حملہ آور ہوئے اور اپنے نقوش ثبت کیے۔
صحرائے عرب جب اسلام کے نور سے منور ہوا، تو مسلمان دنیا کے نقشے پر ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر ابھرے اور اپنے وقت کی دونوں عالمگیر طاقتوں روم اور ایران کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ عربوں کا سند ھ (موجودہ پاکستان) سے تعلق قدیم تھا، اور وہ شاہراہ ریشم کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے، چنانچہ اسلامی خلافت کے ابتدائی برسوں ہی میں سندھ کے ساتھ تجارت کو مضبوط کرنے اور اس قدیم اور اہم ترین گزرگاہ کو عرب تجارتی قافلوں کے لیے محفوظ بنانے کی کوششوں کا آغاز ہوگیا، اس دور میں سندھ پر ایک غاصب کشمیری پنڈت کی حکومت تھی، جس کا سندھ اور سندھی عوام کے ساتھ اتنا ہی تعلق تھا، جتنا انیسویوں صدی کے غاصب نوآبادیاتی حکمران انگریزوں کا تھا، چچ اور اس کے بیٹے داہر نے سندھ پر غاصبانہ قبضے کے بعد بے رحمانہ ٹیکس نظام رائج کر رکھا تھا، سرداروں کے ذریعے غریب سندھی عوام کا خون نچوڑ کر شاہی خزانے بھرنے اور اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے غیر ضروری طور پر بڑی فوج کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے، کم و بیش سو سال پر محیط یہ براہمن راج سندھ کی تاریخ کا تاریک ترین دور تھا، جس میں سندھ میں ترقی کا پہیہ رک گیا تھا، عملاً ڈاکو راج قائم تھا، سرمایہ کار دوسرے ممالک کا رخ کر رہے تھے، تجارتی قافلوں کی لوٹ مار کے نتیجے میں چینی اور عرب تاجر مشرق بعید کے طویل سمندی راستے سے سامان تجارت عرب اور افریقا پہنچانے لگے تھے، چنانچہ سندھ کی اہمیت اور آمدن میں کمی آنے لگی، جیسا کہ مشہور ہے کہ کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں، چنانچہ محمد بن قاسم سندھیوں کے لیے نجات دھندہ بن کر آیا اور اس اہم تجارتی گزرگاہ کو ایک بار پھر بحال کیا۔
مسلمانوں نے اس خطے پر قدم رکھے تو ہزاروں سال کی تاریخ کے برعکس، مقامی لوگوں نے اسلام کے پیغام اور اس کے سفیروں کا یوں استقبال کیا کہ یہ خطہ اسلام کا گھر اور قلع بن گیا، یہی وجہ ہے کہ سندھ کو باب الاسلام بھی کہا جاتا ہے۔ آٹھویں سے انیسوں صدی عیسوی تک یہ علاقہ مختلف مسلمان حکومتوں کے ماتحت رہا۔ واسکوڈی گاما نے افریقا کے گرد چکر لگا کر ہند تک پہنچنے کے لیے نیا راستہ دریافت کیا تو عربوں کی تجارت پر اجارہ داری ختم ہوئی، نہر سوئز کے بننے سے ہزاروں میل کے راستہ مختصر ہوکر چند سو کلومیٹر ہوگیا، مگر سندھ کی بندرگاہوں اور محل وقوع کے اہمیت برقرار رہی، اسی دور میں کراچی کو عروج حاصل ہوا۔
بیسویوں صدی میں قیام پاکستان کے بعد یہ خطہ سو سال بارہ سو سال کی تاریخ میں محض ایک سو سال کے وقفے کے بعد ایک بار پھر مسلمانوں کے پاس آگیا۔ دنیا کے نئی صف بندی ہوئی تو کمیونسٹ سوویت یونین اور امریکا کی سرکردگی میں سرمایہ دارانہ مغرب کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا، تو ایک بار پھر مغربی پاکستان مرکز نگاہ بن گیا۔ گریٹ گیم کے آغاز سے آج تک اس خطے میں اکھاڑ پچھاڑ کا جو سلسلہ جاری ہے اس میں پاکستان کی اہمیت مسلمہ ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ یہ خطہ عالمی سیاست کے جغرافیہ میں فالٹ لائن یا سسمک لائن پر واقع ہے، یعنی زیر زمین دو براعظموں کو آپس میں ملانے اور جدا کرنے والی اْن پلیٹوں کی مانند جن میں ایک ہلکا سا بھونچال بھی عالمگیر سیاست کی دنیا میں تباہ کن زلزلے برپا کرسکتا ہے۔ پاکستان کے ایک جانب دنیا کے سب سے بڑی آبادی والا ملک اور اکیسویں صدی کی ابھرتی ہوئی عظیم طاقت چین ہے تو دوسری جانب دنیا کا دوسرا بڑا آبادی والا ملک بھارت اور تیسری طرف ماضی کی عظیم ترین طاقت ایران۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سیاست کی بساط پر پاکستان ایک ایسا مہرہ ہے جو شاہ کو مات دے سکتا ہے۔ مگر دوسری طرف پاکستان اِسی تزویراتی اہمیت کے سبب تمام علاقائی اور عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کا میدان بھی ہے، چنانچہ خطے میں آنے والی معمولی تبدیلیاں بھی پاکستان کو متاثر کرتی ہیں۔
اور 18 جون 2021 بروز جمعہ ایرانی انتخابات کے نتیجے میں اس خطے میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔ ایران میں1979 کے انقلاب کے بعد سے ہر چار سال بعد صدارتی انتخابات ہوتے ہیں اور صدر کا انتخاب براہِ راست عوام کرتے ہیں، گو کہ ایرانی انتخابی نظام نسبتاً پیچیدہ بلکہ یوں کہیں کہ بڑی حد تک کنٹرولڈ ہے، مگر پھر بھی قیادت کی تبدیلی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ایرانی انتخابی نظام میں امیدواروں کی منظوری نگہبان شوریٰ دیتی ہے، اس طرح کئی انقلاب مخالف شخص تو امیدوار ہو ہی نہیں سکتا، تاہم ان منظورِ نظر امیدواروں میں بھی کچھ لوگ اصلاح پسند اور کچھ شدت پسند کے طور پر جانے جاتے ہیں، کوئی بھی شخص دو بار سے زیادہ صدر نہیں رہ سکتا، اس لیے سابق صدر روحانی اس بار امیدوار نہیں تھے، وہ ایران کے اندر اور باہر ایک اصلاح پسند کے طور پر جانے جاتے ہیں، ان کے عدم موجودگی میں اس بار زیادہ تر امیدوار شدت پسند تھے، اور جو اصلاح پسند تھے بھی وہ انتخابی عمل کے دوران مقابلے سے دستبردار ہوگئے، اس لیے اس بار مقابلہ کافی حد تک یک طرفہ رہا، اور نتائج پہلے سے معلوم تھے، 2021 کے ایرانی صدارتی انتخابات میں سب سے مضبوط امیدوار سید ابراہیم رئیسی تھے۔
رئیسی 2017 کے انتخابات میں روحانی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار تھے، 2017 میں اصلاح پسند روحانی نے تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ، جب کہ شدت پسند رئیسی نے ایک کروڑ اٹھاون لاکھ وو ٹ لیے تھے، 2017 میں ایران میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 72 فی صد رہا تھا، یعنی عوام کی ایک کثیر تعداد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا، یہی وجہ تھی کہ اصلاح پسند امیدوار کامیاب ہوگیا تھا۔ 2021 میں اصلاح پسند امیدوار کی عدم موجودی میں عوام کی غالب اکثریت انتخابی عمل سے لاتعلق رہی، یہی وجہ ہے کہ پانچ کروڑ ترانوے لاکھ ووٹرز میں سے محض دو کروڑ اسی لاکھ نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، اور یوں شدت پسند رئیسی ایک کروڑ اٹھتر لاکھ ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے۔ ووٹنگ کا تناسب 48.84 فی صد رہا۔ اور رئیسی کو 2017 کے مقابلے میں محض 20 لاکھ ووٹ زیادہ ملے۔ یہ ایرانی انتخابات کی چالیس سالہ تاریخ کا مایوس کن نتیجہ ہے۔ کم ترین تعداد میں لوگوں کا ووٹ ڈالنا، ملکی نظام اور اس کے سمت سے مایوسی کا اظہار سمجھا جارہا ہے۔
رئیسی کا انتخاب اس لیے بھی ایران، پاکستان، خطے اور دنیا بھر کے لیے اہمیت کا حامل ہے کہ وہ دنیا بھر میں انتہا پسند شیعہ تنظیموں سے قریبی روابط رکھتے ہیں، 2019 میں انہوں نے لبنان کا دورہ کیا اور امریکا کی جانب سے دہشت گرد اعلان کردہ لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے کمانڈرز کے ساتھ اسرائیلی سرحد کے ساتھ واقع شمالی لبنان کے علاقے میں حزب اللہ کے اگلے مورچوں تک گئے۔ امریکا پہلے ہی ابراہیم رئیسی کو 1988 میں ان کے بحیثیت جج اور سرکاری وکیل ہزاروں انقلاب مخالف ایرانی سیاسی قیدیوں کو پھانسی دینے کے عمل میں ملوث ہونے پر پابندیاں عائد کرچکا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اچانک ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کے فیصلے کے بعد ایران سخت ترین پابندیوں کا شکار ہے، امریکا میں صدارتی انتخابات 2020 میں ٹرمپ کی شکست اور جو بائیڈن کی کامیابی سے امریکا کی ایران پالیسی میں نرمی اور ایٹمی معاہدے میں دوبارہ شمولیت کا جو امکان پیدا ہوا تھا، رئیسی کے انتخاب سے اس کو دھچکا لگے گا۔
عراق، شام اور یمن کی جنگ میں ملوث ایران پہلے ہی شدید معاشی بحران کا شکار ہے، طویل عرصے سے جاری امریکی پابندیوں نے مشکلات میں اضافہ کیا ہے، اوباما انتظامیہ کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں جو مراعات ملی تھیں، ٹرمپ انتظامیہ نے وہ ختم کرکے مزید سخت پابندیاں لگا دیں تھیں، ان پابندیوں کے خاتمے کی موہوم سی امید رئیسی کے انتخاب کے بعد دم توڑ گئیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال سے اصلاح پسند ایرانی صدر روحانی اور ان کے وزیر خارجہ جواد ظریف جو مناسب فاصلہ بنا کر رکھے ہوئے تھے، رئیسی کی آمد کے بعد شاید وہ برقرار نہ رہ سکے، اور ایران افغانستان میں زیادہ متحرک کردار کا خواہاں ہوجائے، جس سے افغانستان اور پاکستان پر شدید اثرات پڑ سکتے ہیں۔
ایران کے نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی ایران کی اعلیٰ ترین فوج پاسداران انقلاب میں خاصے مقبول ہیں، پاسداران اور اس کے ذیلی تنظیم القدس بریگیڈ دنیا بھر کے تنازعات بالخصوص مشرق وسطیٰ عراق، شام اور یمن کی جنگ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایرانی فوج کے مقابلے میں پاسداران کی شناخت ایک نظریاتی اور شدت پسند تنظیم کی ہے، جو نہ صرف بیرونی تنازعات بلکہ ملک کے داخلی معاملات پر بھی گہرے اثرات رکھتی ہے۔ اپنے اخراجات پورے کرنے اور اندرون و بیرون ملک سرگرمیوں کے فروغ کے لیے متعدد بینک، تجارتی ادارے، تعمیراتی کمپنیاں، اخبارات و جرائد اور ٹی وی چینل چلاتی ہے، باہری دنیا میں اْسے ایرانی ریاست کے اندر ایک الگ ریاست کے طور پر جانا جاتا ہے۔
2021 کے صدارتی انتخابات سے پہلے پاسداران کے سوشل میڈیا ونگ نے اصلاح پسندوں کے خلاف بھرپور مہم چلائی اور رئیسی کی کامیابی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی دوران وقتاً فوقتاً پاسداران کے ذرائع پاکستان کے حوالے سے بھی اشتعال انگریز مواد جاری کرتے رہے، جس میں پاکستان کو دہشت گرد دکھایا گیا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی سرحد کے پار حفظ ماتقدم کے طور پر حملوں کا بھی پرچار کیا گیا۔ اس لیے اس بات کا بھی امکان ہے کہ رئیسی کے انتخاب کے بعد ایران کے شدت پسند حلقوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں اضافہ ہو، یا پاکستان کے اندر شدت پسند شیعہ گروہوں کی سرگرمیوں اور سرپرستی میں اضافہ دیکھنے میں آئے۔
اس لیے پاکستان کو اس بدلتی صورتحال پر گہری نظر رکھنے اور انتہائی محتاط پالیسی اپنانے کے ضرورت ہے، امید کرنی چاہیے کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں کے مصداق ایرانی شدت پسند حلقوں کی ہرزہ سرائی کسی عملی کارروائی میں تبدیل نہیں ہوگی، اور ابراہیم رئیسی رئسِ مملکت منتخب ہونے کے بعد اپنے رویے میں اعتدال لائیں گے۔