وہ پارلیمنٹ اور اسپیکر کہاں گئے؟

455

 

پچھلے دنوں قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہلڑ بازی، شور شربا اور گالم گلوچ کے جو مناظر دیکھے گئے وہ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے سوہان روح تھے جنہوں نے پارلیمنٹ کے اولین دور کے اجلاس دیکھے ہیں۔ مجھے قائد اعظم کے زیر صدارات دستور ساز اسمبلی کے اجلاس دیکھنے کا شرف حاصل نہیں ہوا لیکن سن پچاس سے دستور ساز اسمبلی اور قومی اسمبلی کے اجلاس دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اس زمانے میں پارلیمنٹ باوقار ادارہ نظر آتا تھا جہاں اراکین پارلیمنٹ مہذب انداز سے پارلیمنٹ کے تقدس کو مقدم سمجھتے تھے اور اجلاس دیکھنے والوں کو معیاری تقاریر سننے کو ملتی تھیں۔ حسین شہید سہروردی ہوں یا میاں افتخار الدین، چودھری محمد علی ہوں یا ملک فیروز خان نون ہوں انہوں نے اجلاس دیکھنے والوں کو مایوس نہیں کیا۔ اس زمانے میں اراکین پارلیمنٹ کے رویہ کے ساتھ بڑی حد تک پارلیمنٹ کا تقدس اسپیکر کی کوششوں کا بھی مرہون منت تھا۔
سن پچاس میں مَیں نے دیکھا کہ اسپیکر مولوی تمیز الدین خان کا ایوان میں اراکین پارلیمنٹ کس قدر احترام کرتے تھے انہیں کبھی بھی اونچی آواز سے اراکین کو مخاطب کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ تمیز الدین خان کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ وہ دو بار اسپیکر کے عہدے پر فائز رہے۔ انیس سو چون میں جب گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑی تو تمیز الدین خان نے اسپیکر کے عہدے سے الگ ہو کر گورنر جنرل کے اس اقدام کو عدالت میں للکارا گو نظریہ ٔ ضرورت کے تحت فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو جائز قرار دیا جس کے بعد مولوی تمیز الدین اپنے عہدے سے سبک دوش ہو گئے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور دوبارہ انتخا ب لڑ کر وہ پارلیمنٹ میں منتخب ہوئے۔ تمیز الدین خان کے زمانے میں ان کے ڈپٹی اسپیکر سی ای گبنز تھے۔ منحنی سے گبنز جب اسپیکر کی کرسی پر بیٹھتے تھے تو ان کی گرج دار آواز میں آرڈر، آرڈر کا حکم پورے ایوان میں خاموشی طاری کردیتا تھا۔ گبنز بہت سخت اسپیکر مانے جاتے تھے لیکن ہر رکن پارلیمنٹ کو اپنی رائے کا بھر پور موقع ملتا تھا اور کسی کو شکایت نہیں ہوئی۔
مولوی تمیز الدین خان ہی طرح قابل احترام اسپیکر عبد الواہاب تھے ان کے بعد فضل القادر چودھری نے اسپیکر کا عہدہ سنبھالا جو دبنگ اسپیکر شمار کیے جاتے تھے۔ بنگلا دیش کے قیام کے بعد وہ ڈھاکا میں گرفتار کر لیے گے اور پاکستان کی محبت کے الزام میں قید کاٹی اور اسی قید کے دوران وہ ڈھاکا جیل میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ فضل القادر چودھری کے انتقال کے بعد جسٹس عبدالجبار خان اسپیکر منتخب ہوئے جن کے دور کو اب بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔ ان کا اسی طرح احترام کیا جاتا تھا جس طرح مولوی تمیز الدین خان کا اراکین احترام کرتے تھے۔ اپریل انیس سو بہتر سے جولائی بہتر تک مختصر مدت کے لیے ذوالفقار علی بھٹو بھی قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر فائز رہے۔ ویسے بھی سن تہتر کا دور پاکستان کی پارلیمنٹ کے لیے بے حد اہم دور تھا جس کے دوران ملک کا نیا آئین منظور ہوا اس دور کو بہت سے لوگ پارلیمنٹ کا سنہری دور قرار دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اہم اسپیکرز میں الٰہی بخش سومرو، فضل الٰہی، یوسف رضا گیلانی، صاحبزادہ فاروق علی، امیر حسین، ملک معراج خالد، فخر امام، حامد ناصر چٹھہ اور پہلی خاتون اسپیکر فہمیدہ مرزا رہی ہیں۔ پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں ہلڑ بازی اور شور شرابا دیکھ کر پرانا زمانہ یاد آتا ہے اور دل پکارتا ہے کہ کہاں گئی وہ پارلیمنٹ اور اسپیکر جو پارلیمنٹ کے وقار کے محافظ تھے اور اس جمہوری ادارہ کی شان تھے۔
میں انیس سو پینسٹھ سے لندن میں بڑی باقاعدگی سے برطانوی دارالعوام کا اجلاس دیکھتا رہا ہوں، اس اجلاس کے دوران ہر لمحہ دل یہ چاہتا ہے کہ کاش ہماری قومی اسمبلی بھی ایسی روایات پر عمل کرے اور جمہوریت کی بنیادوں کو مضبوط اور مستحکم بنائے۔ دارالعوام کے اسپیکر کی تعظیم کی روایت عقیدہ کی طرح مضبوط ہے۔ رکن پارلیمنٹ جب ایوان میں داخل ہوتا ہے تو وہ جھک کر اسپیکر کی تعظیم کرتا ہے اور ایوان سے باہر جاتے ہوئے اسپیکر کی طرف پیٹھ نہیں کرتا۔ برطانوی دارالعوام میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کی طرح اراکین بطور احتجاج اسپیکر کی میز کی طرف جمع ہوں۔ ویسے بھی دارالعوام کے اسپیکر کی بلند میز کے سامنے دارالعوام کے سیکرٹری اور ان کے نائبین کی میزیں بچھی رہتی ہیں کہ اسپیکر کے سامنے اراکین کے جمع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ویسے بھی ایوان کے قواعد اور روایات پر اراکین مذہبی عقیدے کی طرح عمل کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایوان کا تقدس ناقابل تسخیر سمجھا جاتا ہے۔