نمازوں کا کفّارہ؟
سوال: میرے ایک قریبی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں نمازوں کے بڑے پابند تھے، مگر مرض وفات میں ان کی کچھ نمازیں چھوٹ گئی ہیں۔ کیا ان کا فدیہ ادا کیاجاسکتا ہے؟ اگر ہاں تو براہِ کرم یہ بھی بتائیے کہ فدیہ کتنا ہوگا اور کیسے ادا کیا جائے گا؟
جواب: اگر کسی شخص کا انتقال ہوجائے اور اس کی کچھ نمازیں یا روزے چھوٹ گئے ہوں کیا ان کا وارث ان کا فدیہ ادا کرسکتا ہے؟ اس معاملے میں احادیث میں صرف روزوں کا تذکرہ ملتا ہے، نمازوں کے سلسلے میں کوئی صراحت نہیں ملتی۔ متاخرین فقہائے احناف نے نمازوں کو روزوں پر قیاس کرتے ہوئے چھوٹی ہوئی نمازوں پر بھی کفارہ مشروع قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی وفات سے قبل اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کا فدیہ ادا کیے جانے کی وصیت کردی ہو تو اس کے ایک تہائی مال میں سے اس کی وصیت کو پورا کرنا اس کے ورثا پر واجب ہوگا۔ لیکن اگر اس نے وصیت نہ کی ہو تو ورثا کو اختیار ہے۔ ان کے مطابق ایک نماز کا وہی فدیہ ہے جو ایک روزے کا ہے۔ یعنی بقدر صدقۂ فطر ایک صاع جَو/ نصف صاع گیہوں۔
صحیح بات یہ معلوم ہوئی ہے کہ فدیے کے معاملے میں نمازوں کو روزوں پر قیاس کرنا درست نہیں۔ جس شخص کی کچھ نمازیں اس کی زندگی میں چھوٹ گئی ہوں، اس کے ورثا کا اس کے لیے دعائے مغفرت کرنا اور اس کی طرف سے صدقہ وخیرات کرنا کافی ہے۔ اس کی طرف سے چھوٹی ہوئی نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کا حکم نہیں ہے۔
٭…٭…٭
غیر مسلموں کی کھانے پینے کی چیزیں
سوال: اگر کوئی غیر مسلم دوست یا پڑوسی کسی تہوار یا خوشی کے موقع پر اپنے گھر ہماری دعوت کرے یا کھانے پینے کی کوئی چیز ہمارے گھر بھیجے تو اس کا کیا جائے؟ اسے ہم اپنے استعمال میں لائیں؟ یا کسی غریب کو دے دیں؟ یا ضائع کردیں؟ براہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں۔
جواب: تکثیری معاشرے (society plural) میں سماجی تعلقات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ مختلف مذاہب کے لوگ باہم مل جل کر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور اپنی خوشیوں میں بھی دوسروں کو شامل کرتے ہیں۔ اس طرح امن، سکون اور اپنائیت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ خوشی کے اظہار کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تحفے تحائف کا تبادلہ ہو، دعوتیں کی جائیں اور مٹھائیاں اور کھانے پینے کی دوسری چیزیں تقسیم کی جائیں۔ اسلام میں سماجی تعلقات کو بہتر طریقے سے برتنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ وہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے سماجی تعلقات رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ان سے میل جول رکھا جائے، ان کو تحفے دیے جائیں اور ان کے تحفے قبول کیے جائیں۔ ان کو کھانے کی دعوت دی جائے اور ان کی دعوت قبول کی جائے۔ ان کے گھروں میں آمد ورفت رکھی جائے اور انھیں اپنے گھروں میں بلایا جائے۔ انھیں کھانے پینے کی چیزیں دی جائیں اور ان کی کھانے پینے کی چیزیں قبول کی جائیں۔ البتہ اسلام اپنے ماننے والوں کو حلال وحرام کی سختی سے پابندی کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’آج تمہارے لیے تمام پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں‘‘۔ (المائدۃ: 5)
اس آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے اہل ایمان کے لیے طیبات (پاکیزہ چیزیں) حلال کی ہیں۔ قرآن میں دیگر مقامات پر اس کا بیان بھی ہے کہ وہ خبائث (ناپاک چیزیں) کیا ہیں جنھیں حرام قرار دیا گیا ہے۔ مثلًا سورہ الانعام آیت (145) میں صراحت کی گئی ہے کہ مُردار، بہتا ہوا خون، خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جس کو ذبح کرتے وقت اس پر غیر اللہ کا نام لیا جائے، یہ سب چیزیں حرام ہیں۔ شراب کو بھی حرام کیا گیا ہے۔ (المائدہ : 91)
اسی طرح کھانے پینے کی وہ چیزیں بھی مسلمانوں کے لیے حلال نہیں ہیں جنھیں بُتوں پر چڑھایا گیا ہو۔ ان کے علاوہ غیر مسلموں کی دی ہوئی دیگر کھانے پینے کی چیزیں استعمال کی جاسکتی ہیں۔
مشہور تابعی قتادہؒ کا قول ہے:
’’مجوسی کا کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، ما سوا اْس کے ذبیحے کے‘‘۔ (مصنف عبدالرزاق)
امام قرطبی لکھتے ہیں:
’’ان لوگوں کا کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے جن کے پاس کتاب نہیں ہے، جیسے مشرکین اور بت پرست، بشرط یہ کہ وہ ان کا ذبیحہ نہ ہو۔ (الجامع لاحکام القرآن)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ کسی غیر مسلم کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے یا اس کی دی ہوئی کھانے پینے کی چیز استعمال کی جاسکتی ہے، اگر اس میں کوئی حرام چیز شامل نہ ہو یا ان کے بتوں پر چڑھاوے کی نہ ہو۔