ایران کے صدارتی انتخاب، تاریخی ثابت ہو سکتے ہیں؟

290

جمعہ اٹھارہ جون کو ایران میں صدارتی انتخاب ہو رہے ہیں جو تیسویں انتخاب ہوں گے اور عام خیال ہے کہ یہ انتخاب نہ صرف ایران کے لیے بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے اہمیت کے حامل ہوں گے۔ موجودہ صدر حسن روحانی پچھلے آٹھ سال سے اس عہدے پر فائز ہیں وہ اب تیسری میعاد کے لیے انتخاب نہیں لڑ سکتے۔ اس لحاظ سے ایران کا اگلا صدر نیا شخص ہوگا۔ ایران میں انتخاب میں امیدواروں کی نامزدگی کی منظوری شوریٰ نگہبان دیتی ہے جس نے اس بار 33 سے زیادہ امیدواروں میں سے سات کے ناموں کی منظوری دی ہے جن میں امیر حسین غازی زادہ، عبدالناصر ہمتی، سعید جلیلی، محسن مہرعلی زادہ، ابراہیم رئیسی، محسن رضائی اور مسعود زرہ بافان، شامل ہیں۔ ابراہیم ریئسی جو اس قت عدلیہ کے سربراہ ہیں پچھلے صدارتی انتخاب میں موجودہ صدر حسن روحانی کے مد مقابل تھے آج کل یہ رہبر اعلیٰ علی خامنائی کے بہت قریب مانے جاتے ہیں، عام خیال ہے کہ ان کی کامیابی کے قوی امکانات ہیں۔
اگلے جمعہ کا انتخاب اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ اس کے فوراً بعد ایران کے 2015 کے جوہری سمجھوتے کی تجدید کے لیے بین الاقوامی مذاکرات سنیچر سے شروع ہوں گے۔ ان مذاکرات کی پیش رفت کا دارو مدار نئے صدر کے انتخاب پر ہوگا۔ نو منتخب صدر اگست میں اپنا عہدہ سنبھالیں گے اس لیے فی الفور ایران کے جوہری سمجھوتے پر کسی پیش رفت کا امکان نہیں ہے۔ البتہ ایران کے لیے یہ بات باعث طمانیت ہے کہ صدر ٹرمپ کے بعد جنہوں نے ایران سے جوہری سمجھوتا منسوخ کر دیا تھا اب نئے صدر جو بائیڈن نے جوہری سمجھوتے پر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
ایران کی معیشت میں اصلاح کے حامیوں کا دبائو ہے کہ ایران کے تیل کی پیداوار جو اس وقت پندرہ لاکھ بیرل ہے اس میں بیس لاکھ بیرل تک اضافہ کیا جائے لیکن رہبر اعلیٰ علی خامنائی اضافے کے حامی نہیں ہیں اس کا مقصد مغربی ملکوں پر دبائو بر قرار رکھنا ہے۔ رہبر اعلیٰ علی خامنائی نے جو سن انیس سو اناسی سے ایران کی سیاست پر حاوی رہے ہیں اور ایران کو اسلامی معاشرے میں ڈھالنے میں کامیاب رہے ہیں ایران کی معیشت کو بڑی حد تک اپنے نظریہ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ عام طور پر عوام کو بھی اس کا احساس ہے کہ مغرب نے معاشی طور پر ایران کو بہت جکڑا ہے اور ایران نے اس کا بھر پور مقابلہ کیا ہے جس میں وہ کامیاب اور سرخ رو رہا ہے۔
ایران میں شوریٰ نگہبان انتخابات میں امیدواروں کی منظوری دیتی ہے اور اس بار شوریٰ نگہبان نے بھاری تعداد میں سے دس ممتاز شخصیتوں کو صدارتی انتخاب میں امیدوار کی حیثیت سے منظوری دی ہے ان میں سے صرف دو امیدوار اصلاح پسند اور میانہ رو مانے جاتے ہیں بظاہر ان کی کامیابی کے امکانات نہیں ہیں لیکن مبصرین کی رائے ہے کہ کورونا وبا کے دوران ایران کے عوام کی فکر میں اہم تبدیلی آئی ہے۔ اب تک ایران میں کورونا کے تیس لاکھ سے زیادہ کیسز ہوئے ہیں اور بیاسی ہزار تین سو اموات ہوئی ہیں۔ عام خیال ہے کہ صدارتی انتخاب کے دوران بھی کورونا کی وجہ سے ووٹ بہت کم پڑیں گے۔ اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ کم ووٹ پڑنے سے نتائج پر کیا اثر پڑے گا۔ بہر حال عوام میں اس بات کا احساس ہے کہ مغرب کی اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران نے اپنے وسائل کو نہایت دانش مندی سے استعمال کیا ہے اور ان پابندیوں کا مقابلہ کیا ہے۔ اس کی بدولت عوام میں خود اعتمادی آئی ہے۔ ایران کے عوام کو اس بات کا احساس ہے کہ حال میں اسرائیل نے ایران کے چاروں طرف عرب ممالک کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے جو جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے اس میں ایران نے ثابت قدمی سے کام لیا ہے۔ بلا شبہ اس پس منظر میں ایران کے صدارتی انتخاب بے حد اہمیت کے حامل ہیں اور ایران کے عوام اعلیٰ سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں گے اور ممکن ہے کہ یہ انتخاب اپنے نتائج کے اعتبار سے تاریخی ثابت ہوں۔