مٹاپا بیماریوں کی جڑ ہے،انسانی صحت تباہ اور زندگی کو مشکل بنادیتا ہے

359

کراچی (رپورٹ خالد مخدومی ) تمام عمر کے افراد مٹاپے کو انسانی شخصیت کی جاذبیت کے لیے منفی گردانتے ہیں،یہ انسان کی صحت کو تباہ اورزندگی کو مشکل بنا دیتا ہے،اس کی وجہ سے خون کی رگوں میں کولیسٹرول کی تہہ جم جاتی ہے،دنیا کی10 فیصد آبادی موٹاپے کا شکار ہے، انسان کم عمری میں ہی ذیابطیس، جوڑوں کی بیماری یا آرتھرائٹس کا شکار ہو جاتا ہے، موٹاپے کے اثرات سے بچنے کے لیے خوراک میں پروٹین کا استعمال زیادہ ہونا چاہیے ۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز طبی ماہریں ڈاکٹر انعام ،ڈاکٹر عظمت اللہ شریف، ڈاکٹر سدرہ جبار اور ڈاکٹر ندیم انور نے جسارت کے ا س سوال کے جواب میں کیا جن میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ موٹاپے کے کیا مضمرات ہیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے ،امریکا میں مقیم پاکستانی نژاد امراض دل کے ماہر ڈاکٹر ندیم انور نے کہاکہ مٹاپا تمام بیماریوں کی جڑ ہے، اس کہاوت کو جدید سائنسی تحقیقات نے حرف بہ حرف سچ ثابت کیا ہے مٹاپا انسان کی صحت کو تباہ کرتے ہوئے زندگی کو مشکل بنا دیتا ہے ۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو مٹاپے کے صحت پر پڑنے والے منفی اثرات سے متعلق جانتے ہیں،مٹاپا شوگر کی بیماری کی سب سے بڑی وجہ ہے‘ ضرورت سے زیادہ خوراک کے استعمال سے انسولین کی ضرورت بڑھتی ہے۔ جب لبلبہ یہ بڑھی ہوئی ضرورت پوری نہیں کر پاتا تو نتیجہ شوگر کی بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔ وزن کو نارمل حد سے نیچے رکھنا اور ورزش کا معمول بنانا شوگر سے بچاؤ کا ایک نہایت موثر طریقہ ہے۔موٹاپے کی وجہ سے خون کی رگوں میں کولیسٹرول کی تہہ جم جاتی ہے۔ جس سے رگوں میں خون کا دبائو بڑھ جاتا ہے۔جو ہارٹ اٹیک ، فالج ، گردوں کی خرابی سمیت کئی دیگر جان لیوا امراض کا سبب بنتا ہے ۔ ڈاکٹر ندیم انور کے مطابق جسم اضافی خوراک کو چربی کی صورت میں ذخیرہ کرتا ہے، اس لیے خون میں بھی چربی کے مختلف اجزا بڑھ جاتے ہیں۔ انہی اجزا میں سے ایک کولیسٹرول ہے جو خون کی رگوں کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ اسی طرح دل کو خون پہنچانے والی رگیں تنگ ہونے سے انسان کو انجائنا اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔موٹے لوگوں میں جوڑوں پر دباؤپڑنے سے جوڑوں کی سطح گھسنے لگتی ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کم عمر میں ہی جوڑوں کی بیماری یا آرتھرائٹس کا شکار ہو جاتا ہے۔ موٹے لوگوں میں پیٹ کے آگے نکلنے سے کمر کا خم بڑھ جاتا ہے۔ اس سے مہروں پر دباؤآتا ہے اور حرام مغز سے نکلنے والے اعصاب ہڈیوں کے درمیان پچک سکتے ہیں۔ اس مسئلے کی علامات میں ٹانگوں کا سن ہونا ، ہلنے جلنے میں تکلیف اور پٹھوں کی کمزوری شامل ہیں ڈاکٹر ندیم انور کا مزید کہنا تھاکہ جدید ریسرچ کے مطابق مٹاپا آنتوں ، خوراک کی نالی، گردے اور لبلبے کے کینسر کے امکانات بڑھاتا ہے۔ معروف گائناکولوجسٹ ڈاکٹر سدرہ جبار کے مطابق خواتین میں موٹاپے کے باعث بریسٹ کینسر، بچہ دانی اور انڈہ دانی کے کینسر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں،۔ موٹاپے کی ابتدا عموماً بچپن سے ہی ہو جاتی ہے۔ مائیں اپنے بچوں کو ہر وقت کچھ نہ کچھ کھلانے کی فکر میں لگی رہتی ہیں‘ گول مٹول سے بچے کو صحت مند و تندرست سمجھتی ہیں۔ ایک معیاری پیمانے کے مطابق ایک سال کے بچے کا وزن اگر 10 کلو گرام سے زیادہ ہو تو غذائی احتیاط شروع کر دینی چاہیے ان کا مزید کہنا تھاکہ زیادہ موٹی عورتیں عام طور پر بانجھ رہتی ہیں۔ اگر وہ اپنا وزن کم کر لیں تو ان میں حمل کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔دل اگر تندرست ہو اور آدمی معیاری وزن اور اچھی خوراک کا مالک ہو تو اس وقت دل کی دھڑکنوں کا شمار دن میں 4کروڑ ہوتا ہے جبکہ ہر پانچ سو گرام وزن کی خاطر دل کو ڈیڑھ کلو میٹر لمبی فالتو شریانوں مین خون پہنچانا پڑتا ہے ۔ اگر وزن معیاری وزن سے زیادہ ہو تو دل کو زیادہ کام کرنا پڑیگا۔ اگر دل کی دھڑکن میں ایک منٹ میں صرف 20 کا اضافہ ہو تو دن میں اس کی دھڑکنوں میں 30000 دھڑکنوں کا اضافہ ہوگا اور اس شمار کے مطابق ایک سال میں 107 دن کے برابر زیادہ کام کرنا پڑے گا اور دل کے آرام کا وقفہ کم ہو جائے گا جو اس کی صحت کے لیے مضر ہے۔ زیادہ چکنائی کی وجہ سے دل کی شریانوں میں سختی پیدا ہوگی اور شریانوں کی اندرونی جگہ کھردری اور تنگ ہو جائے گی۔ کئی مرتبہ شریانوں میں انجمادخون کا بھی دورہ پر جات ہے جس کی وجہ سے دل کے ایک مخصوص حصہ کو خون نہیں پہنچ پاتا اور وہ حصہ بظاہر مردہ ہوجاتا ہے۔ یہ سب موٹاپے کی وجہ سے ہوتا ہے ممتا ز فزیش ڈاکٹر عظمت اللہ شریف نے کہاکہ موٹے افراد کو ہمیشہ سانس پھولنے کی شکایت رہتی ہے۔ یہاں تک کہ معمولی ورزش کرنے کی وجہ سے بھی ان کا سانس پھول جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص بہت موٹا ہو تو آرام کی حالت میں بھی اسے سانس کی تکلیف رہتی ہے۔ موٹاپے کا ایک نقصان یہ ہے کہ نظام ہضم در ہم بر ہم ہوجاتا ہے کیونکہ زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس سے اکثر بد ہضمی کی شکایت رہتی ہے‘ موٹے افراد عام طور پر پیروں میں درد کی بھی شکایت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیر کے نیچے دو محرابیں ہوتی ہیں ایک لمبائی کے رخ اور دوسرا پیر کی چوڑائی کے رخ میں۔ ان محرابوں کی وجہ سے جسم کا وزن پیروں پر برابر بٹ جاتا ہے لیکن اگر یہ محراب خراب ہو جائے اور ایک حالت جو کہ چپٹے پیر کہلاتی ہے ، ہوجائے تو وزن برابر بٹنے کے بجائے پیر کی جگہ ٹخنوں اور چھوٹی ہڈیوں پر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موٹے آدمی پیروں میں درد محسوس کرتے ہیں۔ پیروں کے درد کے ساتھ ساتھ موٹے آدمیوں کے ٹخنوں پر عام طور پر ورم آجاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ موٹے لوگوں میں سر سام کے امکانات دبلے پتلے لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ درمیانی عمر کی ایک موٹی عورت اگر وزن کم کرنا چاہتی ہو تو اس کو صرف 1000 کیلو ریز والی خوراک حاصل کرنی چاہیے۔ موٹاپے سے نجات پانے اور اس کے اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ خوراک میں پروٹین کا استعمال زیادہ ہو۔ غذا میں پروٹین کی موجودگی سے جسم کی حرارت و قوت کے استعمال میں تیزی آجاتی ہے جس کی وجہ سے قوت کا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عظمت شریف کا کہنا تھاکہ مٹھائی ، خشک میوہ، کیک، پلائو ، پیسٹری، بریانی ، حلوہ، پڈنگ اور دیگر میٹھی اشیا سے پرہیز کریں۔ خوراک پر کنٹرول کے دوران ورزش جاری رکھنی چاہیے اور ورزش میں آہستہ آہستہ روز بروز اضافہ کرنا چاہئے۔ دیگر امراض کو تو دوائوں کے ذریعے علاج ممکن ہے مگر موٹاپے کا علاج دوائون کے ذریعے اتنا کارگر ثابت نہیں ہوا۔ موٹاپے کو کم کرنے کے لیے عادات میں نظم و ضبط خصوصا خوراک پر کنٹرول کرنا لازمی ہے اور یہ آدمی کو خود کرنا پڑتا ہے۔آغا خان اسپتال کے ڈاکٹر سرجن شاہد عقیل نے کہاکہ کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے باسیوں کو بھی موٹاپے کی وجہ سے صحت کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ گو اس حوالے سے اعداد و شمار دستیاب نہیں تاہم ماہرین کے مطابق اندازاً ملک کی ایک تہائی آبادی ایسی ہے جس کا وزن زیادہ ہے۔یہی نہیں بلکہ ملک کی کل آبادی کا 10 سے 15 فیصد حصہ یعنی دو کروڑ سے زیادہ افراد باقاعدہ طور پر موٹاپے کا شکار ہیں۔ ہر شخص کا خوراک کو جذب کرنے یا کیلوریز کو استعمال کرنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ کچھ افراد کی آنتوں میں پائے جانے والے مفید جرثومے ان کے لیے چھپی ہوئی کیلوریز بھی بنا دیتے ہیں۔تاہم اوسط افراد کے لیے یہ بات بالکل درست ہے کہ آپ خوراک کے مقابلے میں ورزش کم کریں گے تو آپ موٹے ہو جائیں گے ۔ڈاکٹر شاہد عقیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ موٹاپے کی شرح میں اضافے کی ایک وجہ یہ رجحان بھی ہے جس میں نومولود بچوں کو ماں کے دودھ کے بجائے فارمولا ملک یعنی ڈبے کا دودھ پلایا جا رہا ہے۔ جسارت سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد عقیل اس خیال کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے بچے خوراک کی کم فراہمی اور ہیضہ جیسی بیماریوں کے ایک گمبھیر چکر میں پھنس کر ابتدائی عمر میں غذائیت کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔