حیوانات کے ساتھ حسن سلوک (حصہ اول)

401

زمین پر حیوانات کا وجود انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، یہ بندوں پر اس کا بڑا فضل ہے کہ اُس نے چھوٹے بڑے ہر جانور کو اُن کے تابع کردیا ہے۔ حیوانات کے ساتھ انسانوں کی بہت سے ضروریات وابستہ ہیں، ان کی اہمیت وضرورت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اس نے تمہارے لیے جانور پیدا کیے، ان میں تمہارے لیے گرم لباس اور بہت سے فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم (بطورِ غذا) کھاتے ہو اور تمہارے لیے ان میں زینت ہے، جب تم انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور جب چرنے کے لیے چھوڑتے ہو اور وہ چوپائے تمہارے بوجھ اٹھا کر ایسے شہر تک لے جاتے ہیں جہاں تم اپنی جان کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے، بیشک تمہارا رب نہایت مہربان رحم والا ہے اور (اس نے) گھوڑے اور خچر اور گدھے (پیدا کیے) تاکہ تم ان پر سوار ہو اور یہ تمہارے لیے زینت ہے اور (ابھی مزید) ایسی چیزیں پیدا کرے گا جو تم جانتے نہیں، (النحل: 5-8)‘‘ حیوانات کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں تقریباً تیس سے زائد حیوانات کا تذکرہ موجود ہے اور صرف اتناہی نہیں، بلکہ پانچ سورتیں خاص حیوانات کے نام سے موسوم ہیں: سورۂ بقر ہ (گائے)، سورۂ نحل (شہد کی مکھی)، سورۂ نمل (چیونٹی)، سورۂ عنکبوت (مکڑی)، سورۂ فیل (ہاتھی)، اس کے علاوہ تقریباً دو سو آیات میں حیوانات کا تذکرہ موجود ہے۔
اسلام سلامتی کا مذہب ہے اور سلامتی کی یہ نوید صرف انسانوں کے لیے نہیں، بلکہ جانوروں اور درختوں کے لیے بھی ہے، دینِ اسلام نے انسانوں کی طرح حیوانات کے حقوق بھی معین کیے ہیں، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے اور بلاوجہ اُنہیں اذیت وتکلیف میں مبتلا کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ حیوانات کے ساتھ نیکی کرنے کی اہمیت کا اندازہ حسبِ ذیل احادیث سے لگایا جاسکتا ہے:
سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’ایک بدکار عورت کا گزر ایسے کنویں پر ہوا جس کے قریب ایک کتا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا اور قریب تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجائے، کنویں سے پانی نکالنے کو ڈول وغیرہ کچھ نہیں تھا، اس عورت نے اپنا چرمی موزہ نکال کر اپنی اُوڑھنی سے باندھا اور پانی نکال کر اس کتے کو پلایا، اس عورت کا یہ فعل بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوا اور اس کی بخشش کر دی گئی، (مسلم)‘‘۔ اندازہ لگائیں کہ بدکاری کتنا سنگین اور بڑا گناہ ہے، خصوصاً جب عادت اور پیشے کے طور پر ہو، لیکن اتنے بڑے گناہ کو اللہ تعالیٰ نے فقط ایک جانور کے ساتھ نیکی کرنے کی وجہ سے معاف فرمادیا اور نیکی بھی اس جانور کے ساتھ کہ جسے بعض اہلِ علم نے نجس العین قرار دیا ہے اور نبی کریمؐ نے اس کے جوٹھے برتن کو تین یا سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے۔
اسی مفہوم کی ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’ایک شخص کہیں جارہا تھا، را ستے میں اُسے سخت پیاس لگی تو وہ ایک کنویں میں اُترا اور اس سے پانی پیا، جب وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپتے ہوئے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے، اس شخص نے دل میں سوچا: (تھوڑی دیر پہلے) جس طرح پیاس کی شدت مجھے اذیت پہنچا رہی تھی، یہ کتا بھی اِسی طرح اذیت وتکلیف کا شکار ہے، پس (وہ کنویں میں اترا) اس نے اپنا موزہ پانی سے بھرا اور اسے منہ میں لے کر باہر آیا اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس کی اس نیکی کی قدردانی فرماتے ہوئے اس کی بخشش فرمادی، صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا ہمیں چوپایوں کی خدمت کرنے میں بھی اجر ملے گا، آپ نے فرمایا: ہر ذی حیات (جاندارکو نفع پہنچانے) میں اجر وثواب ہے، (بخاری)‘‘۔ ایک شخص نے نبی کریمؐ سے عرض کی: یارسول اللہ! میں اپنے اُونٹوں کو پانی پلانے کے لیے اپنے حوض میں پانی بھرتاہوں، کسی دوسرے شخص کا اُونٹ آکر اس میں سے پانی پیتا ہے توکیا مجھے اس کا اجر ملے گا، تو رسول اللہؐ نے فرمایا: ہر ذی حیات (کو نفع پہنچانے) میں اجر وثواب ہے، (مسند احمد)‘‘۔
اسلام نے ایک طرف حیوانات کے ساتھ حسنِ سلوک کو اجر وثواب کا ذریعہ قرار دیا ہے تو دوسری طرف ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے اور اُنہیں اذیت وتکلیف میں مبتلا کرنے کو گناہ اور عذاب وعقاب کی وجہ قرار دیا ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’نبی کریمؐ نے فرمایا: ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا گیا، اس نے ایک بلی کو پکڑ کر قید کرلیا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مرگئی، یہ عورت نہ تو خود اُسے کھانے کو کچھ دیتی تھی اور نہ اُسے چھوڑتی تھی کہ حشرات الارض سے اپنی غذا حاصل کرلیتی، (بخاری)‘‘۔
حیوانات کو بلاوجہ جسمانی اذیت وتکلیف میں مبتلا کرنے کی ممانعت ایک طرف، نبی کریمؐ نے توحیوانات کو سَبّ وشتم کرنے اور اُن پر لعنت کرنے سے بھی منع فرمایا ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’نبی کریمؐ ایک سفر میں تھے، پس آپؐ نے کسی پر لعنت بھیجنے کی آواز سنی، آپ نے پوچھا: کیا معاملہ ہے، صحابہ نے عرض کی: فلاں عورت ہے، جس نے اپنی سواری کے جانور پر لعنت کی ہے، یہ سن کر نبی کریمؐ نے فرمایا: اس جانور سے کجاوہ اور سامان اُتار دو، بلاشبہ یہ اب ملعونہ ہے، چنانچہ صحابہ نے اس سے سامان اُتار کر اُسے چھوڑ دیا، عمران کہتے ہیں: وہ ایک سیاہی مائل اونٹنی تھی، (ابودائود)‘‘۔ سیدنا زید بن خالد بیان کرتے ہیں: ’’ایک شخص نے مرغے کی اونچی آواز پر اُسے لعنت کی، آپ ؐنے فرمایا: اِس پر لعنت مت کرو، یہ تمہیں نماز کے لیے بیدار کرتا ہے، (مسند احمد)‘‘۔
لعن کے لغوی معنی ہیں: ’’ہانکنا، محروم کرنا اور ذلیل کرنا‘‘، جب لعنت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے: اللہ تعالیٰ کا اپنے قرب اور اپنی رحمت سے محروم کردینا اور جب اس لفظ کی نسبت بندے کی طرف ہو تو اس سے مراد ہوتا ہے: ’’رحمت الٰہی سے دوری ومحرومی کی دعا کرنا‘‘۔ کسی ایسے شخص پر لعنت کرنا جو لعنت کا مستحق نہ ہو سخت گناہ ہے اور بار بار لعنت کرنا تو گناہ کبیرہ ہے۔ اہلِ علم وفقہائے کرام فرماتے ہیں: کسی معین شخص پر لعنت کرنا حرام ہے، اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، ہاں! اگر کسی شخص کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ کفر ہی کی حالت میں مرگیا ہے جیسے ابوجہل وغیرہ تو اس پر لعنت کرنا حرام نہیں ہے، اسی طرح کسی برائی میں مبتلا لوگوں پر عمومی انداز میں لعنت کرنا جیسے یہ کہنا: ’’کافر یا ظالم یا قاتل یا زانی یا سود خور اور جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہو‘‘، یہ حرام نہیں ہے، نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، بے حیا اور بدزبان نہیں ہوتا، (ترمذی)‘‘۔ انسان اور حیوانات تو رہے اپنی جگہ، نبی کریمؐ نے جمادات اور غیر جاندار چیزوں پر بھی لعنت کرنے سے منع فرمایا ہے، سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: ’’ایک شخص نے آندھی پر لعنت کی تو نبی کریمؐ نے فرمایا: آندھی پر لعنت نہ بھیجو، کیونکہ وہ تو (اللہ کے) حکم کی پابند ہے اور جس شخص نے کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجی جو لعنت کی مستحق نہیں ہے تو لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے، (ترمذی)‘‘۔
کئی لوگ بے زبان جانوروں پر اُن کی طاقت سے زیادہ بوجھ لاد دیتے ہیں، جس کی وجہ سے اُنہیں چلنے میں شدید دشواری اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ زیادہ وزن رکھنے سے اُن کی کمر زخموں سے چور ہوجاتی ہے، سنگدلی اور ستم ظریفی کی انتہایہ ہوتی ہے کہ اُنہیں تیز چلانے اور دوڑانے کے لیے اُن پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض جانور وں کو اللہ تعالیٰ نے نقل وحمل یعنی بوجھ اٹھانے کا ذریعہ بنایا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ لاد دیا جائے، نبی کریمؐ نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، چنانچہ آپؐ نے ایک جانور پر تین آدمیوں کو سوار ہونے سے منع فرمایا ہے، (مسلم)، امام شعبی نے تین لوگوں کو ایک خچر پر سوار دیکھا تو فرمایا: ’’تم میں سے ایک شخص اُتر جائے، کیونکہ رسول اللہؐ نے تیسرے شخص پر لعنت فرمائی ہے، (مصنف ابن ابی شبیہ)‘‘۔ سیدنا سہل بن حنظلہ بیان کرتے ہیں: ’’رسول کریمؐ ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو دیکھا کہ بھوک و پیاس کی شدت اور سواری وبار برداری کی زیادتی سے اس کی پُشت اس کے پیٹ سے لگ گئی تھی،
نبی کریمؐ نے فرمایا: ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، ان پر ایسی حالت میں سواری کرو جب وہ طاقت ورہوں اور سواری کے قابل ہوں اور اُنہیں اچھا کھلائو، (ابوداوٗد)‘‘۔
سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: ’’ایک دن نبی کریمؐ کسی انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، اچانک ایک اُونٹ آیا اور آپ کے قدموں میں لوٹنے لگا، اس وقت اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے، نبی کریمؐ نے اس کی کمر اور سر کے پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا، جس سے وہ پرسکون ہوگیا، پھر نبیؐ نے فرمایا: اس اُونٹ کا مالک کون ہے، تو وہ دوڑتا ہوا آیا، آپ نے اس سے فرمایا: اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ملکیت میں دیا ہے، اللہ سے ڈرتے نہیں، یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اِسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے محنت ومشقت کا کام زیادہ لیتے ہو، (ابودائود)‘‘۔
آپؐ نے طویل سفر کے دوران جانوروں کو آرام دینے اور اُنہیں چرنے پھرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’جب تم سبزہ والی زمین میں سفر کرو تو اونٹوں کو ان کا حصہ دو، (مسلم)‘‘، یعنی سفر کے دوران اگر ہریالی نظر آئے تو ان کو کچھ دیر کے لیے چرنے اور آرام کا موقع دو، بھوکا اور پیاسا مسلسل چلاکر ان کو نہ تھکائو، بلکہ جس جانور کی خلقت سواری اور بار برداری کے لیے نہیں ہوئی جیسے گائے اور بھینس وغیرہ تو ان پر سواری کرنا اور بوجھ لادنا جائز نہیں، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’ایک آدمی بیل پر بوجھ ڈالے ہوئے اُسے ہانک رہا تھا کہ اس بیل نے اس آدمی کی طرف دیکھ کر کہا: میں اس کام کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہوں، بلکہ مجھے تو کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیا گیا ہے، لوگوں نے حیران ہوکر کہا: سبحان اللہ! کیا بیل بھی بولتا ہے، تو رسول اللہ نے فرمایا: میں تو اس بات پر یقین کرتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بھی یقین کرتے ہیں، (مسلم)‘‘، اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جانور پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ لادنا اور جس مقصد کے لیے ان کی تخلیق ہوئی ہے، اس کے علاوہ دیگر کاموں میں اُنہیں استعمال نہیں کرناچاہیے۔ (جاری ہے)