افکار سید ابو الا علیٰ مودودیؒ

390

رزق کا معاملہ
آیت (سورہ ھود آیت 6) کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر جتنی مخلوقات ہیں ان سب کے رزق کا سامان خدا نے پیدا کیا ہے۔ یہ سامان اگر خدا نہ پیدا کرتا تو کون چھوٹے چھوٹے کیڑوں اور بھنگوں سے لے کر نوع انسانی تک، اس بے حد وحساب مخلوق کے لیے ہر ایک کی ضرورت کے مطابق رزق فراہم کرسکتا تھا۔ اب رہی یہ بات کہ مخلوقات میں سے کچھ افراد کبھی رزق نہ ملنے کی وجہ سے بھی مرجاتے ہیں، تو اس سے آخر یہ کہاں لازم آتا ہے کہ اللہ کے رازق ہونے کا انکار کردیا جائے؟ اول تو آپ ذرا یہ اندازہ کریں کہ مخلوقات میں سے کتنے فی کروڑ، بلکہ کتنے فی ارب ایسے ہیں جو رزق نہ ملنے کی وجہ سے مرتے ہیں۔ دوسرے یہ بھی سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ جس طرح خدا نے اپنی مخلوقات کے لیے زندگی کا بے حد وحساب سامان فراہم کیا ہے اسی طرح اس نے ان کے مرنے کے لیے بھی تو بے شمار اسباب پیدا کیے ہیں۔ روزانہ لاکھوں کروڑوں آدمی پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ مرنے والے ایک ہی طرح نہیں مرتے بلکہ بے شمار مختلف صورتوں سے مرتے ہیں۔ اور موت کی ان بے شمار صورتوں میں سے ایک صورت رزق نہ ملنا بھی ہے۔ جب موت کا وقت مقرر آپہنچتا ہے اس وقت رزق کی موجودگی بھی کسی متنفس کو موت سے نہیں بچا سکتی۔ صرف رزق ہی نہیں بلکہ زندگی اور موت کا سامان بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
(ترجمان القرآن، جنوری 1966ء)
٭…٭…٭
حضرت حواؑ کی پیدائش
حضرت حواؑ کے پسلی سے پیدا کیے جانے کا عقیدہ جن احادیث پر مبنی قرار دیا جاتا ہے ان میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ حضرت حوا آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کی گئی تھیں، بلکہ ان میں سے ایک کے الفاظ یہ ہیں کہ عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں (استوصوا بالنساء خیراً فانھن خلقن من ضلعٍ)، عورت کو پسلی سے تشبیہ دی گئی ہے (المراۃ کالضلع)، اور تیسری میں یہ فرمایا گیا ہے کہ عورت ذات پسلی سے پیدا ہوئی ہے (المراۃ خلقت من ضلع) مزید براں ان سب حدیثوں میں اصل موضوع بحث انسانی تخلیق کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ نبیؐ نے یہ بات اس غرض کے لیے بیان فرمائی ہے کہ عورت کے مزاج میں پسلی کی سی کجی ہے اس کو سیدھا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کی اسی فطری کجی کو ملحوظ رکھ کر ہی اس سے برتاؤ کرنا چاہیے۔ کیا واقعی آپ کا خیال یہ ہے کہ ان احادیث کی رو سے حضرت حوا کا آدمؑ کی پسلی سے پیدا ہونا ایک اسلامی عقیدہ قرار پاتا ہے؟
(ترجمان القرآن، مئی 1966ء)