پاکستان: امریکا و امریکا پرستوں کی موت ثابت ہوگا؟

425

ایسی بات جس کا کبھی سر غائب ہو اور کبھی دھڑ، نہ صرف ابہام کا سبب ہوا کرتی ہے بلکہ بقول راقم الحروف
یہ جو لکنت تری زبان میں ہے
جھول کچھ تو ترے بیان میں ہے
کی مصداق زبان کا بار بار لڑکھڑانا اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ جو بات بھی کہی جا رہی رہے اس میں غلو سے کام لیا جا رہا ہے۔ جب سے یہ بات طے کر لی گئی ہے کہ امریکا سمیت افغانستان میں جتنی بھی غیر ملکی فوجیں انسانی خون سے ہولیاں کھیلتی رہی ہیں ان کا فرار مقدر بن گیا ہے، افغانستان کے حالات ہر آنے والے دن کے ساتھ مخدوش سے مخدوش تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے امریکی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے افغانستان میں قیامِ امن کی اپنی سی کوششیں کیں لیکن یہی طرز عمل افغانیوں کی نظر میں پاکستان اور امریکا، دونوں کی حیثیت ایک کر گیا۔ انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی نہ صرف افغانستان میں امن و امان کی صورت حال خراب ہوتی جا رہی ہے بلکہ پاک افغان سرحدیں بھی پاکستان مخالفوں کے نشانے پر آ گئی ہیں۔ اس نکتہ ٔ نظر سے اگر سوچا جائے تو یہ بات کہنا کوئی مشکل نہیں کہ امریکی فوجیوں کا انخلا افغانستانیوں کے لیے خوش کن ہے یا نہیں، پاکستان کی دشواریوں میں اضافے کا سبب ضرور بن سکتا ہے اس لیے پاکستان کی لازماً یہ کوشش ہوگی کہ امریکی افواج بے شک افغانستان سے باہر آ جائیں لیکن جب تک افغانستان میں مکمل امن بحال نہ ہو جائے اور پاکستان کی سرحدوں پر مڈلانے والے خطرے کے بادل نہ چھٹ جائیں، امریکی افواج افغان سرحدوں کے آس پاس موجود رہیں۔
امریکا عرصہ بیس سال سے اپنی مرضی کا امن بحال کرنے کی ناکام کوشش کے بعد افغانستان سے باہر آنے کی کوشش میں ضرور مصروف ہے لیکن مسئلہ اس کے باہر آجانے پر ہی ختم ہو رہا ہوتا تو وہ افغانستان کے اندر داخل ہی کیوں ہوتا۔ حقیقت صرف اتنی تھی کہ وہ روس کو افغانستان کے بعد پاکستان کی جانب پیش قدمی کرتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ روس کی گرم سمندروں تک رسائی امریکا کے لیے ایک ایسا بھیانک خواب تھا جو اس کے دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام کر دینے کے لیے کافی تھا۔ جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو وہاں سے روس کا انخلا امریکا کی پہلی ترجیح تھی جس کے لیے اس نے پاکستان کی فوجی حکومت کا سہارا لیکر افغانستان میں ایسی جہادی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں روس کو بہر صورت افغانستان سے باہر نکلنا پڑ گیا۔ روس کے نکل جانے کے بعد وہ ساری جہادی تنظیمیں جن کی وجہ سے روس افغان سر زمین چھوڑنے پر مجبور ہوا، وہ افغانستان پر غلبہ حاصل کرتی گئیں اور وہی تمام گروہ جو مصلحتاً امریکا کے ساتھی بن کر افغانستان سے روس کو نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوئے وہ نہ صرف افغانستان پر غالب آتے چلے گئے بلکہ وہ امریکا کی کسی بھی پالیسی پر عمل کرنے پر بھی آمادہ نہ ہوئے تو یہ بات امریکا کے لیے ناقابل قبول ثابت ہوئی اور یوں امریکا دہشت گردی کو بہانہ بنا کر افغانستان میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ بظاہر امریکا کا افغانستان میں داخل ہونا اسلامی دہشت گردی کا قلع قمع کرنا تھا لیکن بباطن روس کی افغانستان میں دوبارہ واپسی کو ناممکن بنانا تھا۔ اب جبکہ امریکا افغانستان کی سر زمین چھوڑ دینے پر مجبور ہوگیا ہے، وہ اس بات کو بہر طور کبھی گوارہ نہیں کر سکتا کہ روس دوبارہ افغانستان میں داخل ہو کر اس کے لیے مسائل کھڑے کر سکے۔
اگر متذکرہ تجزیہ کو سامنے رکھا جائے کہ امریکا افغانستان سے نکل کر پاکستان کی سرزمین اور فضائی راستوں کو اپنے تصرف میں کیوں لانا چاہتا ہے تو کوئی ایسی بات نہیں جس کو امریکی نکتہ ٔ نظر سے انہونی کہا جا سکے۔ پاکستان کو بھی اس بات کا خوب احساس ہے کہ وہ افغانستان میں مداخلت کا مرتکب ہو کر بڑی آزمائشوں میں گھر چکا ہے اور معاملہ سانپ کی منہ میں چھپکلی بن چکا ہے۔ پاکستان نہ تو افغانستان میں موجود ان قوتوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے جو افغانستان میں آج بھی امریکی انخلا کے حق میں نہیں اور نہ ان کے اعتماد پر پورا اترنے میں کامیاب ہو سکا ہے جن کی حمایت میں وہ افغانستان میں داخل ہوا تھا۔ وہ آبادی جن کے تحفظ کے لیے پاکستان نے اپنے تربیت یافتہ دستے افغانستان میں اتارے تھے، جب وہ حالات کی وجہ سے پاکستان میں پناہ گزیں ہوئے تو ان کے خلاف آپریشن کرکے ان کو بھی اپنا مخالف بنا گیا جس کی وجہ سے خود اپنی سرحدوں کو محفوظ رکھنا پاکستان کے لیے ایک بہت سنگین مسئلہ بن چکا ہے اور یہی وہ پہلو ہے جس کا امریکا بھر پور فائدہ اٹھا کر پاکستان کے زمینی اور فضائی راستے حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔
بجائے اس بات کی تردید کرنے کے، اسی بات کو سو سو طرح بیان کرنے کے بعد اب حکومت کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم امریکا سے کوئی نیا معاہدہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ ترجمان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ’’ہم امریکا کے ساتھ 2001 کے تعاون کے فریم ورک کے تحت کام کر رہے ہیں‘‘، گویا ناک کو گدی کی پیچھے سے ہاتھ گھما کر پکڑا جا رہا ہے۔ 2001 میں جو بھی معاہدہ عمل میں آیا تھا اس میں زمینی اور فضائی راستوں کے علاوہ لاجسٹک سپورٹ جیسی سہولتیں شامل تھیں۔ 2001 کا حوالہ دینے کے باوجود بھی اگر قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان امریکا کو اپنی سر زمین پر کچھ بھی سہولت فراہم نہیں کر رہا تو پھر اس سے بڑا جھوٹ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔
حقیقت یہ ہے صاحبانِ اقتدار و اختیار کی آنکھوں میں ڈالر گردش کر رہے ہیں لیکن ان میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ قوم سے سچ بول سکیں۔ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر قوم کی تقدیر کا سودا ہو رہا ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر افغان سر زمین پر امریکا کے پاؤں نہیں جم سکے تو پاکستانی بیس برس تک کبھی صبر نہ کر سکیں گے۔ پھر ہوگا یہ کہ نہ امریکی یہاں سے جان بچاکر نکلنے میں کامیاب ہو سکیں گے اور نہ ارباب اقتدار و اختیار کو یہ سر زمین پناہ دینے کے لیے تیار ہوگی۔