مقاصدِ شرعیہ میں ایک ’’سَدِّ ذرائع‘‘ ہے، یعنی ایسی حکمتِ عملی اختیار کرنا کہ برائی کا راستہ رک جائے۔ شریعت میں اس کی متعدد مثالیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور (اے مسلمانو) تم مشرکوں کے باطل معبودوں کو برا نہ کہو، ورنہ وہ نادانی اور سرکشی سے اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے، (الانعام: 108)‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے باطل معبودوں کو برا کہنے سے اس لیے منع نہیں فرمایا کہ وہ تعظیم کے لائق ہیں، بلکہ اس لیے منع فرمایا کہ مبادا ان کے پجاری ضد میں آکر اللہ کی شان میں کوئی نازیبا کلمہ کہہ دیں۔ جب سیدنا آدم وحواؑ کو جنت میں داخل کیا گیا تو انہیں حکم ہوا: ’’اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ تم زیادتی کرنے والوں میں سے ہوجائو گے، (الاعراف: 19)‘‘۔ اس میں براہِ راست درخت کا پھل کھانے سے منع نہیں فرمایا، بلکہ قریب جانے سے منع فرمایا، کیونکہ جب قریب جائیں گے تو پھل کھانے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔
احادیث مبارکہ میں بھی ایسی ہدایات موجود ہیں، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’حلال واضح ہے اور حرام (بھی) واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص مشتبہ امور سے بچا، اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچالیا اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوگیا، وہ اس چرواہے کی طرح ہے، جو ممنوع چراگاہ کے اردگرد اپنے مویشی چَراتا ہے، اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ اس کے مویشی ممنوع چراگاہ میں داخل ہوجائیں گے۔ خبردار! ہر بادشاہ کی کچھ ممنوع حدود ہوتی ہیں اور اس زمین میں اللہ کی ممنوع حدود اس کے محرّمات ہیں۔ خبردار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہوتو پورا جسم درست ہوتا ہے اور جب اس میں خرابی پیدا ہوتو پورا جسم فاسد ہوجاتا ہے، سنو! وہ (گوشت کا لوتھڑا) دل ہے، (بخاری)‘‘۔ پس مشتبہات اور ممنوع امور سے بچنا ہی دانش مندی ہے اور اسی میں عزت وآبرو اور دین ودنیا کی فلاح ہے۔
رسول اللہؐ نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی شخص کا اپنے ماں باپ کو گالی دینا ہے، صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ! کیا کوئی ایسا (بدبخت) شخص بھی ہے جو اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے، آپؐ نے فرمایا: ہاں! وہ دوسرے شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے اور وہ (ردِّ عمل میں) اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، وہ دوسرے شخص کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ (ردِّ عمل میں) اس کی ماں کو گالی دیتا ہے، (مسلم)‘‘۔ الغرض دوسرے کے ماں باپ کو گالی دینے والا دراصل اپنے ماں باپ کو گالی دینے کا سبب بنتا ہے، دوسرے کے ماں باپ کی بے عزتی کرنے والا اپنے ماں باپ کی بے توقیری کا سبب بنتا ہے، اگر اس کے ہاتھوں دوسرے کے ماں باپ کی عزت وآبرو پامال نہ ہو تو اس کے ماں باپ کی آبرو بھی سلامت رہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (۱) ’’یہ اللہ کی (ممنوع) حدود ہیں، پس ان کے قریب بھی نہ جائو، اللہ اسی طرح لوگوں کے لیے اپنی نشانیاں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگار بن جائیں، (البقرہ: 187)‘‘، (۲) ’’اور عَلانیہ اور پوشیدہ بے حیائیوں کے قریب نہ جائو، (الانعام: 151)‘‘، (۳) ’’اور بدکاری کے تو قریب بھی نہ جائو، بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے، (الاسراء: 32)‘‘۔ رسول اللہؐ نے فرمایا (۱): ابنِ آدم پر زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے، جسے وہ لازمًا پائے گا، پس آنکھ کا زنا (ہوس بھری نظروں سے) دیکھنا ہے اور جب مرد کی نامَحرم پر نظر پڑتی ہے، تو (نامَحرم سے) منہ پھیر لینے سے (اس کی پاک بازی کی) تصدیق ہوتی ہے اور زبان کا زنا (شہوت انگیز) باتیں کرنا ہے اور دل میں (زنا کی) تحریک پیدا ہوتی ہے اور شرم گاہ (گناہ میں مبتلا ہوکر) کبھی اس کی تصدیق کرتی ہے اور کبھی (گناہ سے بچ کر) اس کی تکذیب کرتی ہے، (مسند احمد)‘‘، (۲) ’’جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرم گاہ (کو شریعت کے تابع رکھنے) کی ضمانت دے، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں، (بخاری)‘‘۔
اعلانِ نبوت سے پہلے سیلاب کے سبب کعبۃ اللہ کے منہدم ہونے کے بعد قریش نے از سرِ نو اس کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا، رسول اللہؐ کی عمرِ مبارک اُس وقت پینتیس برس تھی، آپ نے بھی تعمیر ِ کعبہ میں حصہ لیا، پھر جب حجرِ اسود کو اپنے مقام پر نصب کرنے کا وقت آیا تو قریش کے سرداروں میں جھگڑا ہونے لگا، وہ کسی ایک کو یہ اعزاز دینے پر آمادہ نہ ہوئے، چنانچہ آپؐ کو منصف بنایا گیا، آپؐ نے ایک چادر بچھائی، اُس پر حجرِ اسود کو رکھا اور قریش کے تمام قبیلوں کے سرداروں سے فرمایا: اس کا ایک ایک کونا پکڑ کر اسے اٹھائیں اور جب وہ اپنے مقام تک بلند ہوگیا تو آپؐ نے اپنے دستِ مبارک سے اُسے اٹھاکر اس کے مقام پر نصب فرمادیا، اس طرح آپ کی قائدانہ بصیرت سے یہ مسئلہ حل ہوا۔ قریش نے یہ طے کیا تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر پر صرف حلال مال لگایا جائے، مگر حلال مال اس قدر جمع نہ ہوسکا تھا کہ بنائے ابراہیمی کے مطابق بیت اللہ کی عمارت کو مکمل کیا جاسکے، تو انہوں نے شمال کی جانب کم وبیش تین میٹر کا حصہ موجودہ عمارت سے باہر رکھا، اسی کو ’’حطیمِ کعبہ‘‘ کہا جاتا ہے، اس میں نماز پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا۔
رسول اللہؐ کی دلی خواہش تھی کہ کعبۃ اللہ کو دوبارہ بنائے ابراہیمی پر تعمیر کیا جائے، لیکن آپ نے وسائل ہونے کے باوجود دینی حکمت کے تحت اپنی خواہش پر عمل نہیں فرمایا، آپ ؐ نے فرمایا: عائشہ! اگر تمہاری قوم کا زمانۂ شرک تازہ تازہ نہ ہوتا تو میں کعبۃ اللہ کو منہدم کرکے زمین سے ملادیتا اور پھر اس کے دو دروازے بناتا: ایک مشرقی جانب اور ایک مغربی جانب اور اس میں حِجر (حطیم) کی جانب تقریباً تین گز کا اضافہ کرتا، کیونکہ قریش نے جب کعبہ بنایا تو عمارت کے رقبے میں کچھ کمی کردی تھی، (مسلم)‘‘۔
قرآن وحدیث اور سیرت ِ مصطفیؐ سے ہم نے یہ مثالیں اس لیے بیان کی ہیں کہ ہمارے سیاسی قائدین ان سے سبق حاصل کریں، کئی سال سے ہمارے قائدین کا وتیرہ بن گیا ہے: حزبِ اقتدار والے اپنے مخالفین کو چور، ڈاکو، خائن، غدار اور نجانے کیا کیا کہتے ہیں، اس کے جواب میں اپوزیشن والے اُن پر نااہل، نالائق، کشمیر کا سودا کرنے والے، چینی چور، آٹا چور، پٹرول، میڈیسن مافیا اور نجانے کیا کیا کہتے ہیں۔ بعض لوگ یہ سب کچھ سن کر کہتے ہیں: ’’یہ دونوں سچے ہیں، یہ ایک دوسرے کے بارے میں جو فتوے صادر کرتے ہیں، وہی سچ ہے اور یہ ایسے ہی ہیں جیسے کہ کہا جارہا ہے‘‘۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں ہے، عربی کا مقولہ ہے: ’’جس نے دوسروں کی عزت کی، اُس نے خود اپنے لیے عزت کمائی‘‘۔ احتساب کے لیے گالی گلوچ ضروری نہیں ہے، شفاف، بے لاگ، غیر جانبدار اور نظر آنے والا انصاف ضروری ہے، اس کے لیے ادارے قائم ہیں، اُن کو بیرونی جبر سے آزاد ماحول میں اپنا کام کرنے دیا جائے۔ اس شورو غوغا میں ان اداروں کی حرمت بھی پامال ہورہی ہے، ایسا تاثر مل رہا ہے کہ وہ حکومت ِ وقت کے دبائو میں ہیں اور احتساب یک طرفہ ہورہا ہے۔
ہمارے ہاں گالی گلوچ کے لیے باقاعدہ فوجِ ظفر موج رکھی گئی ہے، جو میڈیا کے سامنے، ٹاک شوز میں اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی توہین، تذلیل اور تحقیر میں مصروف ہیں، نئی نسل کے ذہنوں پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتّب ہورہے ہیں، اب یہ اندازِ گفتار اور لب ولہجہ ہمارے نوجوانوں کے روز مرہ کا حصہ بن رہا ہے، اس کا ثبوت سوشل میڈیا پر موجود ہے۔
وہ لوگ جو قیادت کے منصب پر فائز ہیں، انہیں مدبّر، متین اور بردبار ہونا چاہیے تاکہ لوگ انہیں ان کی خوبیوں سے پہچانیں۔ اندازِکلام کسی بھی معاشرے کے آداب اور اقدار کا ترجمان ہوتا ہے، انسان اپنی گفتار سے پہچانا جاتا ہے، شرافت اور متانت انسانیت کے محاسن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا: ’’اُس کی نشانیوں میں سے تمہاری بولیوں اور رنگتوں کا مختلف ہونا ہے، (الروم: 22)‘‘ نیز فرمایا: ’’اور اگر آپ کا رب چاہتا تو سب لوگوں کو ایک امت بنادیتا اور لوگ برابر ایک دوسرے سے اختلاف کرتے رہیں گے سوائے اُس کے کہ جن پر تمہارا رب رحم فرمائے، (ہود: 118)‘‘۔
ایک دور تھا کہ ہمارے سیاسی و مذہبی قائدین میں وضع داری اور رواداری قائم تھی، اختلاف کے باوجود وہ مشترکات کے لیے مل بیٹھتے تھے، ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ نہیں کرتے تھے، ایک دوسرے کے موقف اور پالیسیوں سے اپنے دلائل کی روشنی میں اختلاف کرتے تھے، مگر اب آغاز ہی ذاتیات سے ہوتا ہے۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا (۱): ’’مومن لعن طعن کرنے والا، فحش گو اور بدزبان نہیں ہوتا، (ترمذی)‘‘، (۲): ’’ایک انسان سوچے سمجھے بغیر کوئی ایسا کلمہ زبان سے کہہ دیتا ہے، وہ کلمہ اس کو جہنم کے اندر اتنی گہرائی تک گرادیتا ہے جتنا مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ ہے، (بخاری)‘‘، (۳) ’’جو کسی مسلمان کی ایسی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی، تو اللہ تعالیٰ اُسے اُس وقت تک ’’رَدْغَۃُ الْخَبَال‘‘ میں رکھے گا جب تک کہ اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہوجائے، (ابودائود)‘‘۔ ’’رَدْغَۃُ الْخَبَال‘‘ جہنم کی اُس وادی کو کہتے ہیں جس میں جہنمیوں کا پیپ اور خون جمع ہوتا ہے۔ معراج النبی کے موقع پررسول اللہؐ کا گزر ایک چھوٹے پتھر کے پاس سے ہوا جس سے روشنی نکل رہی تھی، آپ نے دیکھا: اُس سے ایک بیل نکلا، پھر وہ اُسی سوراخ میں واپس داخل ہونا چاہتا ہے مگر داخل نہیں ہوپاتا، آپ ؐنے جبریل سے پوچھا: یہ کیا ہے، انہوں نے کہا: یہ اُس شخص کی مثال ہے جو سوچے سمجھے بغیر بات کرلیتا ہے، پھر اس پر نادم ہوتا ہے اور اُسے واپس لینا چاہتا ہے، مگر ایسا کر نہیں سکتا، (دَلَائِلُ النُّبُوَّۃ لِلْبَیْہَقِیْ)‘‘۔
پس سیاسی قائدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے فریقِ مخالف کی نہیں تو اپنی عزت کا پاس رکھیں، ایسا شعار، اندازِ گفتار اور رویہ اختیار نہ کریں کہ ردِّعمل میں ان کی اپنی عزت پامال ہو اور دنیا کو یہ تاثر ملے کہ ہمارے قانون ساز ادارے بے وقعت ہیں، بے توقیر ہیں، باہمی نفرتوں کا مرکز ہیں۔ یہ جس مقصد کے لیے قائم کیے گئے ہیں، اُس کو چھوڑ کر غیر ضروری باتوں میں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ یہ سطور ہم نے خیر خواہی کے طور پر لکھی ہیں، نہ کسی کی حمایت مقصود ہے اور نہ مخالفت، کیونکہ لوگ پسند کریں یا ناپسند، یہ قوم کے رہنما بنے بیٹھے ہیں۔