ترے وعدے پر جیے ہم

466

ویسے تو جتنے بھی سول حکمران قوم پر براجمان ہوتے رہے ہیں ان میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے سے بڑھ کر پریشان حال عوام کی آنکھوں میں ایسے ایسے سنہرے خواب سجائے کہ مارے خوشی وہ ہمیشہ مر جانے کے قریب پہنچتے رہے لیکن ’’کاو کاو سخت جان ہائے ’انسانی‘‘ نہ پوچھ‘‘ کی وجہ سے کسی نہ کسی صورت قوم خوشی سے تو مرنے سے بچتی رہی لیکن دکھائے گئے سنہری خوابوں کی خیرہ کردینے والی روشنیاں نہ تو اس کی بینائیاں سلب کر سکیں اور نہ ہی انہیں شادی مرگ کا شکار کر پائیں اور پھر ہوا یوں کہ قوم اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھ گئی کہ جھوٹ میں سے سچ کو کس طرح کشید کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ حکومت سے قبل جتنی بھی حکومتیں پاکستان میں آتی رہیں وہ بے شک لوگوں کی آنکھوں میں ایک سے ایک خواب سجاتی رہی ہیں لیکن موجودہ حکومت نے تو گزشتہ ساری حکومتوں کے جتنے بھی جھوٹے خواب، وعدے اور دعوے تھے ان سب کو یک جا کرنے اور ان کو کئی سو سے ضرب دینے کے بعد قوم کے سامنے کچھ اس یقین کے ساتھ رکھا جیسے حکومت کی پوری ٹیم جادوگروں کا ایسا گروہ ہو جس کے پاس ایسی چھڑیاں ہوں جن کی معمولی جنبش بھی ایسے کمالات دکھا جائیں گی کہ پاکستانی عوام تو عوام، دنیا اپنی آنکھوں پر اس لیے ہاتھ رکھ کر ڈھانپ لے گی کہ دکھائی دینے والی کرامات و معجزات یقین کر لینے میں مانع ہوں۔ نجانے کن شیطانی طاقتوں نے موجودہ حکمرانوں کے لب و لہجے میں وہ اثر پیدا کر دیا تھا کہ کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں بچا جو دام فریب سے اپنے آپ کو بچا سکا ہو۔ حد یہ ہے کہ تین سال سے ہر دکھائے جانے والے خواب، دعوں اور وعدوں کے بالکل بر خلاف ہوتے دیکھنے کے باوجود بھی فریب خوروں کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اپنی آس و امید کا دامن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور اسی امید پر زندہ ہیں کہ حکومت سے کوئی نہ کوئی نہ کوئی ایسا ظہور ضرور ہو کر رہے گا جو زیر کو زبر کرکے چھوڑے گا۔
کہتے تو یہی ہیں کہ پاکستان میں عام لوگوں کی رائے سے وجود میں آنے والی یہ واحد حکومت ہے جو عوام کی تقدیر بدل دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ کیا یہ بہت ضروری ہے کہ ہر قسم کی تبدیلی کو ہمیشہ مثبت ہی تصور کیا جائے۔ دنیا میں کوئی ایک تصویر بھی ایسی نہیں جس کا ایک ہی رخ ہوا کرتا ہو۔ آسمان سے برسنے والی گھٹائیں ہمیشہ رحمت ہی کی تو نہیں ہوا کرتیں کہ ان کے برس کر گزرجانے کے بعد زمین سونا اگلنے لگتی ہو، اکثر کھیتیاں کی کھیتیاں بھی تو اجڑ کر رہ جاتی ہیں۔ جہاں بنجر زمین پر ہری بھری کھیتیاں لہلہانہ تبدیلی شمار کی جاتی ہو وہاں آباد کھیتوں کھلیانوں کا اجڑ جانا بھی تو ایک تبدیلی ہی ہوا کرتی ہے۔ جس طرح اٹھتی اور چڑھتی چلی آنے والی گھٹاؤں کو دیکھ کر پیاسی زمینیں خوشی کے شادیانیں اس امید و آس پر بجانے لگتی ہیں کہ برکھا اب ان کی پیاس بجھا کر ہی رہے گی وہیں اس کے بر عکس مناظر بھی تو دیکھنے میں آ جایا کرتے ہیں۔ یہ سارے نشیب و فراز زندگی کا جزو لاینفک ہیں۔ موجودہ حکومت بھی عوام کے ساتھ چڑھتی اور امڈتی ایسی گھٹا ثابت ہوئی جس کو آسمان کی وسعتوں پر چھاتے دیکھ کر عوام نے اپنے سارے گھڑے ہی پھوڑ دیے لیکن ان کو اس بات کی کیا خبر تھی کہ جن گھڑوں کو وہ پھوڑ رہے ہیں وہ صرف گھڑے ہی نہیں ان کی تقدیریں بھی ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اب سے پہلے ہر آنے والی حکومت نے وہ کچھ کبھی کر کے نہیں دکھایا جس کا دعویٰ وہ اقتدار میں آنے سے قبل کرتی دکھائی دیتی رہی لیکن ایسا بھی نہیں ہوا کہ اپنے وعدوں اور دعوں کے ایک ایک لفظ کے بر خلاف بھی گئی ہو۔ پاکستان کی جمہوری سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ کوئی ایک بات جو اقتدار میں آنے سے قبل یا اقتدار مل جانے کے بعد کہی گئی ہو، اس کے مطابق ہوتی دکھائی دی ہو۔ یہ بات عوام کے لیے نہ صرف شدید صدمے کا سبب ہے بلکہ اتنی مایوس کن ہے کہ پورے پاکستان کے عوام سکتے کے عالم میں آئے ہوئے ہیں۔
26 مئی 2021 عوام کو اس وقت شدید ذہنی صدمہ پہنچا ہوگا جب پاکستان کے اس وزیر اعظم جس کا فرمانا تھا کہ وہ سو پچاس یا ہزار دو ہزار نہیں، ایک کروڑ نوکریاں دے گا اور اچھی معاشی حکمت عملیوں کی وجہ سے ملک کو اس مقام پر لے آئے گا جہاں نوکریوں کے مواقع زیادہ اور نوکریاں کرنے والے کم پڑجائیں گے جس کے نتیجے میں بیرونی دنیا کے بے روزگار لوگ پاکستان کی جانب دوڑ دوڑ کر آنے پر مجبور ہو جائیں گے، حکومت کے پاس نوکریاں ہے ہی نہیں تو ہم کہاں سے دیں۔ پوری دنیا میں ملازمتیں پرائیویٹ سیکٹروں کے پاس ہوتی ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ اپنا اپنا کاروبار کریں، چھابڑیاں لگائیں، محنت کریں اور اپنی اپنی دکانیں کھولیں۔
بات وزیر اعظم کی بھی غلط نہیں، ملازمتیں پرائیویٹ سیکٹر ہی میں ہوا کرتی ہیں لیکن جس ملک میں دکانیں، مکانات، بازار، شاپنگ پلازے اور ریڑھی بانوں تک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہو، جس ملک میں ایک ریڑھی کھڑی کرنے والا بھی بنا رشوت دیے بازار میں کھڑا نہ رہ سکتا ہو وہاں کوئی بھی کاروبار کیونکر ترقی کر سکتا ہے۔ عوام پرائیویٹ کام تو اس وقت ہی شروع کریں گے جب انہیں قانون نافذ کرنے والے سکون کا سانس لینے دے رہے ہوں گے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم صاحب کم از کم اتنا تو کر جائیں کہ کار و بار کرنے والے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرنے لگیں۔
یقین مانے اب تو یہ عالم ہو گیا کہ ہر عام و خاص موجودہ حکمرانوں کی لاف گزاف سن کر یہی کہتا نظر آتا ہے کہ
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا