سخت گرمیوں کی دوپہر تھی دھوبی اپنی گدھا گاڑی پر کپڑے لادے شہر کی جانب جارہا تھا دھوبی کا کتا اس کی گدھا گاڑی کے سائے میں آہستہ آہستہ چل رہا تھا اور اپنے آپ سے کہہ رہا تھا کہ دھوبی کو احساس نہیں ہے کہ میں کتنی وزنی گدھا گاڑ ی کھینچتا ہوا روزانہ شہر لے کر جاتا ہوں۔ یہ دھوبی کے کتے کا اپنا احساس تھا جس کے تحت وہ اس سائے کو جو جس کے ساتھ وہ چل رہا تھا سمجھ رہا تھا کہ میں اس گاڑی کو کھینچ رہا ہوں۔ بات ذرا سخت ہے مگر کہنا بھی ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں اخبار میں یہ خبر پڑھی جس میں وزیر اعظم نے اپنی حالیہ تقریر میں یہ ارشاد فرمایا کہ ہم سرکاری نوکری نہیں دے سکتے نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنا کاروبار کریں ہر بار کی طرح انہوں نے بیرون دنیا کی مثال پیش کی اور کہا کہ دوسرے ممالک میں لوگ اپنا کاروبار کرتے ہیں یا پرائیوٹ نوکریا ں کرتے ہیں۔ اپنا کاروبار نوجوان کرے کیسے؟ ملک میں بدامنی ہے، نت نئے ٹیکسوں کی بھرمار ہے، جو لوگ پہلے ہی اپنا کاروبار کررہے ہیں وہ بھی حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے کاروبار سمیٹ رہے ہیں کجا یہ کہ لوگ اپنے کاروبار کریں جب امن وامان ہو اور حکومتی سطح پر کاروبار کی حوصلہ افزائی ہورہی ہو تو روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں نئے لوگ بھی کاروبار میں آتے ہیں بیرون ملک سے بھی کاروباری حضرات اپنا سرمایہ لگانے میں سرگرمی دکھا تے ہیں۔ آج سے چالیس سال پہلے سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں میں اتنے روزگار تھے کہ بیرون ممالک سے لوگ نوکریاں کرنے ادھر کا رخ کرتے تھے اور اپنے ممالک کے لیے کثیر زرمبادلہ کماتے تھے۔ لیکن آج کی صورت حال یکسر مختلف ہے۔ ان سارے حالات کی ذمے دار یہی اشرافیہ اور بیوروکریٹ طبقہ ہے جس نے حلق سے اوپر تک اس ملک کا پیسہ کھایا ہے۔ ملک کو یہی
اشرافیہ اور بیوروکریٹ چلا رہے ہیں جبکہ خان صاحب یہ سمجھ رہے ہیں کہ ملک کی گاڑی پاکستان کی منتخب سیاسی جماعت تحریک انصاف چلارہی ہے ہر وزیر بشمول وزیر اعظم ایک نیا بیان داغ دیتا ہے تو دوسرے دن اپنے ہی بیان کی تردید کرتا نظر آتا ہے۔۔۔ منافقت کی انتہا ہے۔
بات سندھ کی جائے تو وہ تو نہلے پہ دہلا کے مصداق ہے جہاں کرپشن میں حکومت سندھ کا ایک نمایاں مقام ہے وہاں روزگار کے معاملے میں بھی کرپشن عروج پر ہے یاد رہے کہ سندھ میں عرصہ ٔ دراز سے کوٹا سسٹم نافذ ہے اگر کوٹا سسٹم بہت فائدہ مند سسٹم ہے جس کے ذریعے شہری اور دیہی آبادیوں کے درمیان فرق ختم ہوتا ہے تو اس کا نفاذ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بھی ہونا چاہیے، مگر اس کو سندھ میں مستقل کرکے نوجوانوں کو احساس محرومی کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے اس کھیل میں وفاق برابر کا شریک ہے۔ یہاں جعلی ڈومیسائل بناکر حیدرآباد اور کراچی کی نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی نوکریوں پر اپنے من پسند لوگوں کو بھرتی کررہی ہے۔ اندرون سندھ سے بڑی تعداد میں ڈاکٹر اور دیگر افسران کراچی اور حیدرآباد تبادلے کے ذریعے آرہے ہیں اور جو جگہ خالی ہورہی ہے وہاں پھر سے نئے افراد بھرتی کیے جارہے ہیں۔ بظاہر تو سرکاری محکموں میں ٹھیکیداری نظام کے تحت بھی نوکریوں پر پابندی ہے مگر اس کے باوجود من پسند افراد کو نوکریاں دی جارہی ہے۔ اور جو لوگ برسوں سے اس طرح کی نوکری کررہے ہیں اور جن کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے ان کی نوکریوں کو پکّا بھی نہیں کیا جارہا ہے۔
سندھ کی مینیمم ویجزبورڈ کے فیصلے کی بھی دھجیاں ہوا میں اُڑائی جارہی ہیں یا یہ ادارہ بھی مفلوج ہوچکا ہے اور اس کے فیصلے بھی کاغذوں تک محدود ہیں۔ اس ادارے کے اندر اتنی سکت موجود نہیں ہے کہ کتنے ہی ایسے ادارے موجود ہیں جن میں ایسے ملازمین مجبوراً نوکریاں کررہے ہیں جن کی تنخواہ سترہ ہزار پانچ سو سے بھی کم ہے۔ مثال کے طور پر اوجھا انٹر نیشنل، ڈاؤ میڈیکل کالج اور یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز جس میں سیکڑوں ملازمین برسوں سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کررہے ہیں یہ افراد تعلیمی استعدادکے لحاظ سے گریجویٹ اور ماسٹر ڈگری کے حامل ہیں۔ یہ حضرات چھ سال اور آٹھ سال سے یہاں کام کررہے ہیں تعجب کی بات یہ ہے کہ بارہا ڈائریکٹر آف ہیومن ریسوسز اور وی سی سے ملاقات کی جاچکی ہے اور سیکڑوں خطوط اپنے اپنے شعبے کے چیئر پرسن کی سفارشات کے ساتھ ارسال کیے جاچکے ہیں مگر…
بے حسی کا زہر پی کر لوگ کبھی کے سو چکے
پتھروں کے اس نگر میں آدمی مت ڈھونڈیے
اتنے عرصے کی نوکری کے باوجود انہیں علاج اور دواؤں کی سہولتیں بھی میّسر نہیں ہیں۔ یہ وہ صوبہ ہے جس کے ووٹوں سے کامیاب ہونے والی پارٹی روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا منشور رکھتی ہے یہاں سے کامیاب ہونے والے صدر آصف علی زرداری جو کبھی گھوڑے پالنے کے شوقین تھے۔ وہ ایک جانور کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ اس کے لیے ملازمین رکھے گئے ان گھوڑوں کے کھانے کے لیے بادام اور میوے دیے جاتے تھے۔ آج کے وزیر اعظم بھی جن کی تحریک انصاف کرپشن کے خلاف نبرد آزما ہے اور ہر سو یہ سننے میں آرہا ہے کہ ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ کسی کو این آر اہ نہیں دونگا۔ انہیں بھی کتّے پالنے کا شوق ہے فرائض منصبی ادا کرنے کے بعد ان کتوں کو کھانا بھی کھلاتے ہیں اور اپنا وقت انہی کتوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ تعجب ہے کہ جو لوگ جانوروں کا اتنا احساس رکھتے ہیں وہ انسانوں سے اتنے بے خبر کیسے ہوسکتے ہیں ۔ وزیر اعظم صاحب آپ کی ناک کے نیچے ہی اسی طرح سے لوگ چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرکے اپنی زندگی کی گاڑی کو دھکّا دے رہے ہیں۔ جب آپ مہنگائی کا شکوہ کرتے ہیں کہ دولاکھ تنخواہ میں آپ کا گزارا نہیں ہوتا تو جو بے چارہ پندرہ ہزار ماہانہ تنخواہ اپنے گھر لے کر جاتا ہوگا اس کا گزارا کیسے ہوتا ہوگا؟ آپ جس ریاست مدینہ کا نام لیتے نہیں تھکتے اس کے حکمران کی نیند تو اس دودھ پیتے بچّے کے بلکنے نے اڑادی تھی جس نے خود قانون بنایا تھا کہ جو بچّہ ماں کا دودھ چھوڑ دے گا اور روٹی کھانا شروع کردے گا اس کو بیت المال سے وظیفہ ملے گا۔۔۔ وہ رات اپنے بستر پر کروٹیں بدلتا رہا اور موذن کی اذان کا انتظار کرتا رہا جیسے ہی نماز فجر کی ادائیگی سے فارغ ہوا لوگوں نے دیکھا کہ خلیفہ وقت سیدنا عمر کی آنکھیں اشک بار ہیں جن کی ریاست چوبیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی۔ جس کی ریاست مدینہ میں ایک بچّہ رویا تھا۔ لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا لوگو! عمر نے نجانے کتنے دودھ پیتے بچّوں کو رلایا۔۔۔ سنو! آج کے بعد جو بچّہ دنیا میں آئے گا اس کا وظیفہ اسی دن سے جاری ہوگا۔ آج آپ میٹھی میٹھی تقریریں کررہے ہی اور آپ کے اردگرد موجود آپ کے چاپلوس وزیر اور مشیر زندہ باد زندہ باد کے نعر ے لگارہی ہے۔۔۔ لیکن کل کیا ہوگا؟