حصہ اول
تحریک لبیک پاکستان کے خلاف حکومتی اعلان کے حوالے سے انگریزی پریس نے OutLawed, Banned اور Defunct کے الفاظ استعمال کیے ہیں، ان کے معنیٰ بالترتیب: ’’غیر قانونی قرار دینا، ممنوع قرار دینا اور عملی کردار سے روک دینا‘‘ ہیں۔ اس کا ترجمہ ’’کالعدم‘‘ کیا جاتا ہے، لیکن اکثر لوگ اس کا تلفظ ’’کال عدم‘‘ کرتے ہیں، جو غلط ہے۔ دراصل یہ عربی لفظ ہے، اس میں کاف کے بعد ’’الف‘‘ لکھا جاتا ہے، لیکن تلفُّظ میں ’’الف‘‘ گر جاتا ہے، اس کا تلفظ: ’’کَلْعَدَم‘‘ ہے، اردو محاورے میں کالعدم کا مفہوم ہے: ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘۔ Defunct کے معنی ہیں: ’’غیر فعّال ہونا‘‘۔ کالعدم سے ملتا جلتا عربی لفظ ’’بِالْکُلِیّہ‘‘ ہے، اس کے معنی ہیں: ’’تمام کا تمام یا پورے کا پورا‘‘، اُردو میں اسے ’’یقینا‘‘ کے معنی میں ’’بِالکُل‘‘ بولاجاتا ہے، بعض انگلش میڈیم صحافی غلط طور پر اسے ’’بِلکُل‘‘ لکھتے اور بولتے ہیں، نئی نسل کے نوجوانوں کو اس حوالے سے معذور سمجھا جائے گا، کیونکہ اب اردو زبان کا مضمون محض رسمی طور پر پڑھایا جاتا ہے۔
Fact اور Material:
عدالت عظمیٰ کے فل بنچ کے سامنے اسی عدالت کے ایک معزز جج صاحب کے خلاف نظر ثانی کامقدمہ چل رہا تھا، اس میں ایف بی آر کی رپورٹ کا حوالہ آیا، جو عدالت عظمیٰ کے حکم یا ہدایت پر مرتّب کی گئی ہے، اس کا قانونی پہلو اس وقت ہمارا موضوع بحث نہیں ہے۔ اس کی بابت درخواست گزار اور بار کے وکیل جناب حامد خان کا موقف تھا: ’’جب صدارتی ریفرنس اصلاً ردّکردیا گیا، تو اس کے ضمن میں ایف بی آر کی رپورٹ بھی بے اثر اور ساقِطُ الاعتبار ہوگئی، لہٰذا اس پر بحث بیکار ہے، کیونکہ یہ نظر ثانی کا کیس ہے، تفتیش اور حقائق جاننے کا نہیں ہے‘‘۔ نظرِ ثانی کیس میں سابق فیصلے کے اندر کسی ممکنہ غلطی کی نشاندہی کر کے اس کے ازالے کی درخواست کی جاتی ہے، نظرِ ثانی کیس میں نئے حقائق یا وہ اُمور جو اصل فیصلے کے بعد منظر پر آئے ہوں، زیرِ بحث نہیں لائے جاسکتے، اس کی گنجائش ٹرائل کورٹ میں ہوتی ہے، اپیلٹ کورٹ میں نہیں۔ لہٰذا اصل فیصلے ہی میں عدالت کا ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم یا ہدایت دینا غلط تھا، سو جب یہ حکم ہی غلط ہے تو اس کی روشنی میں تیار کی گئی رپورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل کورٹ میں زیرِ غور نہیں لایا جاسکتا، نظرِثانی پٹیشن میں چار کے مقابلے میں چھ ججوں کی اکثریت سے فیصلہ ہوا اور رپورٹ کو ساقطُ الاعتبار قرار دیا کہ یہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیرِ بحث نہیں لائی جاسکتی۔
عدالتی کارروائی کے دوران فل بنچ کے سربراہ جناب جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا: ’’جب رپورٹ آہی گئی ہے، تویہ ایک Fact ہے اور حقائق ( Facts) معدوم نہیں ہوتے‘‘، پھر اس سے تنزُّل کر کے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا: ’’Material تو موجود ہے اور یہ معدوم نہیں ہوگا، لہٰذا سپریم جوڈیشل کونسل اسے زیر غور لاسکتی ہے‘‘۔ ہم عدالتی کارروائی یا فیصلے پر کوئی ماہرانہ بحث نہیں کر رہے، بلکہ زبان وبیان کی حد تک اس پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ہماری رائے میں Fact اس ثابت شدہ حقیقت کو کہتے ہیں، جو تمام قانونی مراحل طے کرتے ہوئے عدالتی تنقیح وتحقیق کے بعد ثابت ہوجائے، جبکہ ایف بی آر کی رپورٹ ابھی ان مراحل سے گزری ہی نہیں تھی، لہٰذا اس پر Fact کا اطلاق معنوی اعتبار سے درست نہیں تھا۔
Material کے معنی ہیں: ’’موادّ‘‘، یہ مادّہ کی جمع ہے اور مادّہ کسی چیز کے ’’جوہرِ اساسی‘‘ کو کہتے ہیں، جس سے وہ چیز تشکیل پاتی ہے۔ کافی عرصے سے بعض’’اُدَباء‘‘ اور اہلِ علم نے ’’موادّ‘‘ کا ترجمہ ’’لوازمہ‘‘ کرنا شروع کررکھا ہے اور ’’لوازمہ‘‘ کے معنی ہیں: ’’ضروری چیزیں اور سامان، (قائد اللّغات)‘‘۔ شاید ان اہلِ علم نے لفظِ موادّ کا استعمال اس لیے ترک کیا کہ اردو لغت میں اس کے معنی: ’’پیپ، رطوبت اور غلاظت‘‘ کے ہیں اور ان معانی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس لفظ کا تاثر سماعت اور ذہن پر ناگوار گزرتا ہے، پس اُس کی جگہ لفظِ ’’لوازمہ‘‘ کا استعمال شروع ہوا، لیکن عام پڑھے لکھے لوگوں کے لیے اب بھی لوازمہ کا لفظ نامانوس ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں موادّ کا سمجھنا نئی نسل کے لیے آسان ہے۔
عدالت میں درخواست پیش کرنے، التجا واستدعا کرنے اور مقدمہ دائر کرنے کو انگریزی میں Plea اور درخواست کنندہ کو Pleader یا Petitioner کہتے ہیں۔ مقدمہ دائر کرنے کے لیے اردو میں عربی زبان کا لفظ ’’مُرَافَعَۃ‘‘ استعمال ہوتا ہے، اگرچہ قانون کی کتابوں کا ترجمہ کرتے ہوئے ’’مُرَافَعَۃ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، لیکن نہ یہ روز مرّہ بول چال میں استعمال ہو سکا اور نہ عام آدمی کا ذہن اس لفظ کو سن کراس کے معنی کی طرف منتقل ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ مُدّعی، مُسْتَدعِی، مُلْتَجِی یا درخواست گزار کی عام فہم اصطلاح استعمال کی جائے۔
عربی زبان کے چند کلمات ’’تا‘‘ کے زبر کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں:
حتّی الامکان، حَتَّی الْوَسَع اور حَتَّی الْمَْقْدُوْر، ان کے معنی بالترتیب یہ ہیں: (۱) ’’جہاں تک ممکن ہے‘‘، (۲ و۳) ’’جہاں تک بس میں ہے‘‘۔ ان کا تلفظ اردو میں تاء کی پیش کے ساتھ ’’حَتُّ الامکان‘‘، ’’حَتُّ الْوَسَع‘‘ اور ’’حَتُّ الْمَقْدُوْر‘‘ کیا جاتا ہے، جو غلط ہے، البتہ لکھتے صحیح ہیں۔
عربی میں ’’ن‘‘ کے زبر کے ساتھ الفاظ: ’’بَینَ الاَقوام‘‘، ’’بَینَ الْمَمالک‘‘ اور ’’بَیْنَ الْمَذَاھِب‘‘ ہیں، ان کا تلفظ اردو میں ’’نون‘‘ کی پیش کے ساتھ ’’بَیْنُ الْاَقْوَام‘‘، ’’بَیْنُ الْمَمَالِک‘‘ اور ’’بَیْنُ الْمَذَاھِب‘‘ کیا جاتا ہے، جو غلط ہے۔
ریاست کے لیے میم کی پیش کے ساتھ لفظ ’’مُمْلِکَت‘‘ بولاجاتا ہے، یہ عربی لفظ ہے اور عربی میں اس کا صحیح تلفظ میم کے زبر کے ساتھ: ’’مَمْلَکَۃ‘‘، ’’مَمْلُکَۃ‘‘ اور ’’مَمْلِکَۃ‘‘ ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’بادشاہت‘‘۔ ’’م ل ک‘‘ کے مادّے سے جو مشتقات نکلتے ہیں، وہ یہ ہیں: میم کے پیش اور لام کی جزم کے ساتھ ’’مُلْک‘‘ ہے، اس کی جمع مَمَالِک (میم کی زبر کے ساتھ) ہے، ہمارے ہاں میم کی پیش کے ساتھ غلط طور پر’’مُمَالِکْ‘‘ بولاجاتا ہے۔ میم کی زیر اور لام کے جزم کے ساتھ ’’مِلْک‘‘ (زیرِملکیت) ہے، اس کی جمع اَمْلَاک ہے، بعض لوگ ’’اِمْلَاک‘‘ بولتے ہیں، جو غلط ہے۔ میم کے زبر اور لام کی زیر کے ساتھ ’’مَلِکْ‘‘ (بادشاہ) ہے اور اس کی جمع مُلُوْک ہے، میم اور لام کے زبر کے ساتھ ’’مَلَکْ‘‘ (فرشتہ) ہے، اس کی جمع مَلَائِکْ اور مَلَائِکَۃ ہے، آج کل ناموں میں جدّت کا رواج ہے، اس لیے بعض عورتوں کا نام ’’مَلَائِکَۃ‘‘ سننے میں آتا ہے، ’’سروش‘‘ نام بھی سننے میں آتا ہے، سین اور راء کی پیش کے ساتھ یہ فارسی لفظ ’’سُرُوْش‘‘ ہے اور اس کے معنی ہیں: فرشتہ۔
ٹی وی پر ایک صاحب ’’مُمْلِکت ِ خداداد ِ پاکستان‘‘ بول رہے تھے، مملکت کی غلطی پر تو ہم سطورِ بالا میں متوجہ کر چکے ہیں، خداداد کی دال کے نیچے اضافت کی زیر لگانا غلط ہے، اسے بولنا چاہیے: ’’مملکت ِ خداداد، پاکستان‘‘، دال کے نیچے زیر لگانا اور بولنا نہیں چاہیے، یعنی لفظِ خداداد کے دال کو ساکن رہنا چاہیے۔
رسالت مآب: بعض حضرات بولتے ہیں: ’’رسالت ِ مآبؐ‘‘، اس میں لفظِ ’’رسالت‘‘ کی تاء کے نیچے اضافت کی زیر لگانا اور بولنا غلط ہے، یوں بولنا چاہیے: ’’رسالت مآب‘‘ یعنی رسالت کی تاء ساکن ہونی چاہیے۔ لفظِ ’’رسالت مآب‘‘ دراصل اضافتِ مقلوب ہے اور اصل صورت ہے: ’’مآبِ رسالت‘‘، مآب کے معنی ہیں: ’’مرجِع، لوٹنے کی جگہ‘‘، اس کا مفہوم یہ ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہؐ کی ذاتِ گرامی ایسی ہے کہ آپ کی ذات رسالت کے لیے باعثِ افتخار ہے، یعنی آپ سے منصبِ رسالت کو عظمت ملی، رفعت ملی، شان ملی، جیسا کہ آپؐ نے فرمایا: ’’میں قیامت کے دن اولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور یہ میرے لیے کوئی فخرکی بات نہیں اور حمدِ باری تعالیٰ کا پرچم میرے ہاتھ میں ہوگا اور یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے، اُس دن جو بھی نبی ہوگا حتیٰ کہ آدمؑ سے لے کر (زمین پر آنے والے) سب نبی میرے پرچم تلے ہوں گے اور قبر سب سے پہلے میرے لیے کھلے گی اور سب سے پہلے میں باہر آئوں گا اور یہ فخر کی بات نہیں ہے، ( ترمذی)‘‘۔
سالار: سالار کے معنی ہیں: ’’کسی جماعت یا گروہ کا سربراہ، سردار یا افسرِ اعلیٰ‘‘، ہمارے ہاں ایک اصطلاح ’’قافلہ سالار‘‘ کی ہے، یہ بھی اضافتِ مقلوب ہے، دراصل یہ ’’سالارِ قافلہ‘‘ ہے، یعنی قافلے کا سربراہ، اسی طرح ہمارے ہاں مسلّح افواج کے سربراہ کو ’’سپہ سالار‘‘ کہتے ہیں، یہ بھی دراصل ’’سالارِ سپاہ‘‘ ہے، یعنی فوجیوں کا سربراہ، جسے انگریزی میں General کہتے ہیں۔ ’’پیرانِ پیر‘‘ کی اصطلاح بھی اضافتِ مقلوب ہے، دراصل یہ ’’پیرِ پیراں‘‘ یعنی پیروں کا پیر ہے، جیسے ہم اپنے آقا ومولا سیدنا محمد رسول اللہؐ کا ’’سیدالانبیاء والمرسلین‘‘ اور ’’امام الاولین والآخرین‘‘ کے لقب کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔
مُتَنَوِّعْ: یہ لفظ وائو کی زیر کے ساتھ ’’مُتَنَوِّع‘‘ ہے، اِس کے معنی ہیں:’’انواع واقسام کا‘‘، بہت سے لوگ اسے ’’مُتَنَوُّعْ‘‘ بولتے ہیں جو غلط ہے، اسی طرح’’مُتَوَقِّع‘‘ کے معنی ہیں: کسی بات کی امید رکھنے والا، بعض لوگ اسے ’’مُتَوَقُّعْ‘‘بولتے ہیں جو غلط ہے، البتہ قاف کے زبر کے ساتھ ’’مُتَوَقَّع‘‘ کے معنی ہیں: جس چیز کی امید رکھی جائے، مثلاً: کل فلاں شخص کی آمد ’’مُتَوَقَّع‘‘ ہے۔
عُلَمَاء: عَالِم کی جمع ہے، کئی لوگ اردو کے طرز پر اس کی جمع الجمع بناکر ’’عُلَماؤں‘‘ بولتے ہیں، جو درست نہیں ہے، اسی طرح ’’اولاد‘‘ وَلَد کی جمع ہے، لیکن ہمارے ہاں اردو کے طرز پر اس کی جمع بناکر ’’اولادوں‘‘ بولا جاتا ہے، جو غلط ہے۔
نوٹ: وَلَد کا اطلاق لڑکا لڑکی دونوں پر ہوتا ہے۔
طالبِ عِلمہ: ایک دینی ادارے کے رسالے کے اداریے میں طالبہ کے لیے ’’طالبِ علمہ‘‘ لکھا ہوا تھا، غالباً رواروی میں لکھ دیا ہوگا، ورنہ وہ صاحبِ علم ہیں۔
باقی صفحہ3نمبر1
مفتی منیب الرحمن
تبرّا: تبرّا کے معنی ہیں: ’’کسی سے اعلانِ لا تعلقی کرنا، برأت ظاہر کرنا، لعن طعن کرنا، نفرت کا اظہار کرنا‘‘ وغیرہ، اس کو عربی میں ’’تَبَرّیٰ‘‘ لکھا جاتا ہے، اردو میں ’’تبرّا کرنا‘‘ اور ’’تبرّا بھیجنا‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے، تبرّا کرنے والوں کو ’’تبرّائی‘‘ بھی کہتے ہیں، ایک معروف کالم نگار نے اسے ’’تبرّہ‘‘ لکھا ہے، جو درست نہیں ہے۔
تَرین: تا کے زبر کے ساتھ یہ لفظ ’’تَرِیْن‘‘ ہے، ایک پٹھان قبیلے کا نام بھی’’تَرین‘‘ ہے، یہ فارسی لفظ ہے اور ’’تفضیلِ کُلّی‘‘ (Superlative Degree) کے معنی میں آتا ہے، جیسے بہترین، بدترین، کم ترین، عظیم ترین وغیرہ، آج کل کئی نیوز ریڈر اور اینکر جہانگیر خان ترین کا نام لیتے ہوئے تا کے سکون کے ساتھ ’’تْرین صاحب‘‘ بولتے ہیںجو درست نہیں ہے، عربی فارسی میں کسی بھی لفظ کا پہلا حرف ساکن نہیں ہوسکتا، لیکن اہلِ پنجاب ایسا ہی تلفظ کرتے ہیں۔
صورتحال: اکثر اہلِ قلم اسے مفرد شکل میں لکھتے ہیں اور ’’و‘‘ اور ’’ت‘‘ دونوں کو ساکن پڑھتے ہیں، اصولی طور پر کسی لفظ کے درمیان میں دو لفظ ساکن نہیں ہوسکتے، سوائے الف کے، وہ تلفظ میں ساقط ہوجاتا ہے، اس لفظ کو ’’صورتِ حال‘‘ پڑھنا چاہیے۔