پاک سعودی تعلقات

342

پاکستان اور بردار ملک سعودی عرب کے درمیان پچھلے سال کشمیر کے مسئلے پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک انٹریو کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی جمی ہوئی برف کی تہہ گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان کے کامیاب دورۂ سعودی عرب کے بعد نہ صرف پگھل چکی ہے بلکہ سیاسی مبصرین اس دورے کو پاک سعودی تعلقات میں نئی بلندیوں سے بھی تعبیرکر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس دورے کے آغاز پر سعودی عرب پہنچ کر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے نہ صرف خود وزیر اعظم پاکستان کا استقبال کیا بلکہ اس تین روزہ دورے کے دوران دونوں ملکوں نے مختلف شعبوں میں تعاون کے کئی معاہدوں پر دستخط بھی کیے۔ ان میں اہم ترین معاہدہ پاکستانی وزیر اعظم اور سعودی ولی عہد کی مشترکہ قیادت میں سعودی پاکستان سپریم رابطہ کونسل کا قیام ہے۔ عمران خان کے اس دورے کے بعد ماہرین یہ امکان ظاہرکررہے ہیں کہ اس دورے کے نتیجے میں پاک سعودی تعلقات میں پڑنے والی دراڑ کو کافی حد تک پاٹنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں دونوں ممالک کے لیے اپنے دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم اور وسیع کرنے کے واضح امکانات پیداہوگئے ہیں جس سے اگر ایک طرف پاکستان کواپنی بگڑتی ہوئی معیشت کو کسی حد تک سنبھالنے میں مدد مل سکتی ہے تو دوسری جانب یہ تعلقات مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں سعودی عرب کی بھی ضرورت اور مجبوری ہیں کیونکہ اسے بھی خطے اور عالمی سطح پر نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ خاص کر جب سے محمد بن سلمان پر خصوصی طور پر مہربان رہنے والے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو شکست دینے والے نئے امریکی صدر جو بائیڈن برسراقتدار آئے ہیں تب سے سعودی عرب کو امریکا کی ویسی غیر مشروط حمایت حاصل نہیں رہی جو اس سے پہلے دیکھنے میں آرہی تھی۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ہمیں جہاں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے سابق صدر ٹرمپ کے برعکس مارچ میں نہ صرف منحرف سعودی صحافی جمال خاشق جی کے قتل کی خفیہ امریکی رپورٹ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا بلکہ اس رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ اس قتل کا حکم شہزادہ محمد بن سلمان نے دیا تھا۔ گوکہ سعودی عرب نے جمال خاشق جی قتل سے متعلق امریکی رپورٹ کو مسترد کیا ہے لیکن واشنگٹن کی طرف سے اپنے ایک قابل اعتماد حلیف کے خلاف اس رپورٹ کی اشاعت سے سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات میں پیدا ہونے والی دوری کو ہر کوئی باآسانی محسوس کرسکتاہے۔ اسی طرح سعودی امریکا تعلقات میں پیدا ہونے والی ایک واضح خلیج بائیڈن حکومت کی جانب سے یمن جنگ میں سعودی عرب کا ساتھ دینے سے انکار اور ایران نواز حوثی باغیوں پر عائد امریکی پابندیوں میں نرمی کی صورت میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کی جانب سے ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لیے ایٹمی تعاون معاہدے کی از سر نو بحالی اور ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی کی جو کوششیں ہورہی ہیں یہ وہ حالات ہیں جن کے باعث سعودی عرب کو ایک بار پھر پاکستان جیسے پرانے اور آزمودہ دوستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی نئی صف بندی کرنی پڑ رہی ہے جس میں عمل کا رنگ حسب روایت پاکستان کو بھرنا پڑا ہے۔
تجزیہ کاروں کا استدلال ہے کہ پاکستان کی جانب ایک بار پھر دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی سعودی حکمت عملی اصل میں ان تبدیل شدہ حالات کا اثر یا پھر مجبوری ہے جن کا تذکرہ درج بالا سطور میں کیا گیا ہے۔ یہاں اس امرکو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ صرف ایک دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں پرانی گرم جوشی اور گہرائی کی فوری واپسی کی آس لگانا بھی عقل مندی نہیں ہوگی البتہ اس کا آغاز بہر حال دونوں دوست ممالک کے یقینا وسیع تر مفاد میں ہے۔ اس ضمن میں کم از کم پاکستان کے آپشنز بہت واضح ہیں کیونکہ وہ کسی بھی صورت سعودی مالی امداد اور سرمایہ کاری سے دست کش ہونے کا رسک نہیں لینا چاہے گا۔ اسی طرح پاکستانی حکومت سعودی عرب میں کام کرنے والے تیس لاکھ سے زائد پاکستانیوں کے روزگار کی ضمانت کے علاوہ یہاں روزگار کے دستیاب دیگر مواقع میں بھی مزید پاکستانی ہنرمندوں کی کھپت چاہے گی۔ پاکستان سی پیک منصوبہ خاص کر گوادر میں عالمی معیار کی آئل ریفائنری کے قیام میں بھی سعودی سرمایہ کاری کی نہ صرف امید کرتا ہے بلکہ اسے ایک مثبت اور خوش آئند پیش رفت بھی سمجھا جائے گا۔
یہاں یہ امر بھی وضاحت طلب ہے کہ پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کا ہاتھ تھامنے کی ایک وجہ اگر اس کی معاشی مجبوریاں ہیں تو دوسری بڑی وجہ عالم اسلام میں پاکستان کا اسلامی نظریے کی بنیاد پر وہ قائدانہ کردار ہے جس کو اگر کوئی گھٹانا بھی چاہے تو نہیں گھٹا سکتا لہٰذا گھما پھرا کر دوست ممالک کو وقتی غلط فہمیوں اور ناراضیوں کے باوجود پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا پڑتا ہے اور پاکستان ہمیشہ ان ہاتھوں کو تھامنے میں نہ تو تامل سے کام لیتا ہے اور نہ ہی ان مواقع پر کسی مصلحت اور توتا چشمی کو آڑے آنے دیتا ہے دراصل پاکستان کا یہی وہ نظریاتی کردار ہے جو اسے دیگر اسلامی ممالک سے نمایاں اور ممتاز بناتا ہے حالانکہ بعض دیگر اسلامی ممالک کی طرح پاکستان کے پاس بھی وقتی مصلحتوں کی آڑ لینے کے جواز اور دلائل موجود ہوتے ہیں لیکن پاکستان نے آج تک کسی بھی اسلامی مملکت کو نہ تو دھوکا دیا ہے اور نہ ہی کبھی انہیں کسی مشکل گھڑی میں تنہا چھوڑا ہے۔ حرف آخر یہ کہ پاکستان اور سعودی عرب کے لیڈروں کا عارضی تعطل اور وقتی غلط فہمیوں کے بعد مل بیٹھنا اور مسائل پر بات چیت کرنا جہاں ان دونوں دیرینہ دوست ممالک کی ضرورت ہے وہاں یہ روابط مشرق وسطیٰ کے دن بدن گمبھیر ہوتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ افغانستان اور پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔