افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

465

خلافت کے معنی
اسلامی ریاست کے رئیس یا صدر کے لیے ’’خلیفہ‘‘ کا لفظ کوئی لازمی اصطلاح نہیں ہے۔ امیر، امام، سلطان وغیرہ الفاظ بھی حدیث، فقہ، کلام اور اسلامی تاریخ میں کثرت سے استعمال ہوئے ہیں مگر اصولاً جو چیز ضروری ہے وہ یہ کہ ریاست کی بنیاد نظریہ خلافت پر قائم ہو۔ ایک صحیح اسلامی ریاست نہ تو بادشاہی یا آمریت ہو سکتی ہے اور نہ ایسی جمہوریت جو حاکمیت عوام
( sovereignty Popular) کے نظریے پر مبنی ہو۔ اس کے برعکس صرف وہی ریاست حقیقت میں اسلامی ہو سکتی ہے جو خدا کی حاکمیت تسلیم کرے، خدا اور اس کے رسول کی شریعت کو قانون برتر اور اولین ماخذ قوانین مانے، اور حدود اللہ کے اندر رہ کر کام کرنے کی پابند ہو۔ اس ریاست میں اقتدار کی اصل غرض خدا کے احکام کا اجرا اور اس کی رضا کے مطابق برائیوں کا استیصال اور بھلائیوں کا ارتقا ہے۔ اس ریاست کا اقتدار، اقتدار اعلیٰ نہیں ہے بلکہ خدا کی نیابت و امانت ہے۔ یہی معنی ہیں خلافت کے۔
٭…٭…٭
اُموی خلافت
اموی فرمانرواؤں کی حکومت حقیقت میں خلافت نہ تھی۔ اگرچہ ان کی حکومت میں قانون اسلام ہی کا تھا، لیکن دستور (Constitution) کے بہت سے اسلامی اصولوں کو انہوں نے توڑ دیا تھا۔ نیز ان کی حکومت اپنی روح میں اسلام کی روح سے بہت ہٹی ہوئی تھی۔ اس فرق کو ان کی حکومت کے آغاز ہی میں محسوس کر لیا گیا تھا۔ چنانچہ اس حکومت کے بانی امیر معاویہ کا اپنا قول یہ تھا کہ انا اوّل الملوک (میں سب سے پہلا بادشاہ ہوں) اور جس وقت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کیا اس وقت سیدنا ابوبکرؓ کے صاحبزادے عبدالرحمٰنؓ نے اٹھ کر برملا کہا کہ ’’یہ تو قیصریت ہے کہ جب قیصر مرا تو اس کا بیٹا قیصر ہوگیا‘‘۔
٭…٭…٭
خلفائے بنو عباس
اصولی حیثیت سے خلافت عباسیہ کی پوزیشن بھی وہی ہے جو خلافت بنی امیہ کی ہے۔ فرق بس اتنا تھا کہ خلفائے بنی امیہ دین کے معاملے میں بے پروا (Indifferent) تھے اور اس کے برعکس خلفائے بنی عباس نے اپنی مذہبی خلافت اور روحانی ریاست کا سکہ بٹھانے کے لیے دین کے معاملے میں ایجابی طور پر دلچسپی لی۔ لیکن ان کی یہ دلچسپی اکثر دین کے لیے مضر ہی ثابت ہوئی۔ مثلاً مامون کی دلچسپی نے جو شکل اختیار کی وہ یہ کہ اس نے ایک فلسفیانہ مسئلے کو جو دین کا مسئلہ نہ تھا، خواہ مخواہ دین کا ایک عقیدہ بنایا اور پھر حکومت کی طاقت سے زبردستی اس کو تسلیم کرانے کے لیے ظلم و ستم کیا۔
٭…٭…٭
حسینؓ یا یزید؟
جس دور کے متعلق یہ سوال کیا گیا ہے وہ حقیقت میں فتنے کا دور تھا۔ مسلمان اس وقت سخت انتشار ذہنی میں مبتلا ہوگئے تھے۔ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس وقت عملاً مسلمانوں کا حقیقی لیڈر کون تھا۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ یزید کا سیاسی اثر جو کچھ بھی تھا صرف اس بنا پر تھا کہ اس کے پاس طاقت تھی اور اس کے والد نے ایک مضبوط سلطنت قائم کرنے کے بعد اسے اپنا ولی عہد بنا دیا تھا۔ یہ بات اگر نہ ہوتی اور یزید عام مسلمانوں کی صف میں شامل ہوتا تو شاید وہ آخری شخص ہوتا جس پر لیڈر شپ کے لیے مسلمانوں کی نگاہ انتخاب پڑ سکتی۔ اس کے برعکس حسین ابن علیؓ اس وقت امت کے نمایاں آدمی تھے اور ایک آزادانہ انتخاب میں اغلب یہ ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ ان کے حق ہی میں پڑتے۔
(رسائل مسائل، جلد سوم)