اسلام دشمن قوتوں اور مغرب کی سازشوں کے نتیجے میں 1948میں فلسطین میں قائم ہونے والی ناجائز ریاست اسرائیل روز اول سے فلسطینی عوام کے حقوق غضب کر کے عظیم تر اسرائیل کے گھنائونے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ انبیاء کی سرزمین خون ناحق میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کی تازہ مثال رمضان المبارک کے آخری عشرے میں یوم القدس کے موقع پر جمعتہ الودع کی نماز کے دوران اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ پر بدترین جارحیت کی اور اسرائیلی طیاروں نے غزہ پر شدید بمباری کی اور سو سے زائد حملوں میں پانچ سو سے زائد فلسطینی کو شہید کر دیا چھ ہزار سے زائد زخمی ہیں، ان میں 85معصوم بچے اور 34 خواتین بھی شہید ہوئی ہیں۔ اسرائیل کے ان حملوں کے نتیجے میں سیکڑوں مکانات اور میڈیا سینٹر بھی زمیںبوس ہوگئے ہیں۔ او آئی سی، عرب لیگ اور اقوام متحدہ قرار داوں تک ہی محدود رہی ہے۔ 57سے زائد اسلامی ممالک نے حقیقی طور پر ترجمانی کا حق ادا نہیں کیا اور یہ مسلم حکمران اُمت کے ساتھ ایک طرح سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ادھر حماس نے قابض صہیونی فوج کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کر کے صہیونی فو ج کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ پوری دنیا میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ خود اسرائیل میں امن پسند یہودی ان حملوں کے خلاف مذمت کر رہے ہیں۔ امریکا جو روز اول سے اسرائیل کا پشت بان ہے اس نے اس موقع پر بھی کھل کر اسرائیل کا ساتھ دیا۔ اس مرتبہ فلسطینیوں نے معمولی سی مزاحمت کی اور تھوڑا سا جواب دیا تو بزدل یہودیوں پر گویا قیامت بپا ہوگئی اور وہ زیر زمین چھپتے پھر رہے تھے۔ اسرائیل اور اس کے چیلوں کے لیے فلسطینیوں کا یہ جواب غیر متوقع اور ناقابل یقین تھا اور اسرائیل اپنے لوگوں کی جان بچانے کے لیے جنگ بندی پر فوری طور پر آمادہ بھی ہوگیا جبکہ اس قبل اسرائیل کسی معاہدے، کسی قانون اور عالمی دبائو کی پروا نہیں کرتا تھا اسرائیل نے یک طرفہ طور پر فلسطینیوں کو دیوار سے لگایا ہوا تھا۔
انبیاء کی سرزمین پر اسرائیل کا وجود امت مسلمہ کے دل میں خنجر کی طرح پیوست ہے اور اس کا وجود ہی غیر قانونی ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے پوری دنیا کہ مسلمانوں پر بجلی سی گرا دی اور کراچی سے لیکر مراکش تک امت مسلمہ سڑکوں پر نکل آئی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی۔ اسرائیل کے خلاف لندن میں بھی بھرپور احتجاج کیا گیا۔ وسطی لندن کی فضا آزاد فلسطین اور تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل سے انسانی جانوں کے ضیاع کا حساب لیا جائے اور اسرائیل کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔ ادھر پاکستان میں بھی اسلام آباد، پشاور، لاہور، کوئٹہ اور کراچی میں بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے اور احتجاج منعقد ہوئے اور تمام ہی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سراپا احتجاج بن گئی۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور امت مسلمہ کے دھڑکتے ہوئے دل کراچی میں جماعت اسلامی کراچی کے تحت فلسطین مارچ شاہراہ فیصل پر امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی قیادت میں منعقد ہوا۔ شدید ترین گرمی میں جب کراچی شہر کا درجہ حرارت 42 اور 43 ڈگری کو چھو رہا ہے۔ کراچی کے اہل ایمان بردار حافظ نعیم الرحمن کی ایک آواز پر دیوانہ وار اپنے فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی مظالم کے خلاف سراپا احتجاج سڑکوں پر نکل آئے۔ نوجوان، بزرگ، خواتین، معصوم دودھ پیتے بچے عملی طور پر میدان عمل میں نکلے اور پورا شاہراہ فیصل لبیک یا اقصیٰ کے نعروں سے گونج اٹھا اور ان فلک شگاف نعروںکی گونج اسلام آباد ہی نہیں بلکہ واشنگٹن تل ابیب اور غزہ تک سنائی دی۔
حماس کے سربراہ اور فلسطین کے سابق صدر اسماعیل ہنیہ کے وڈیو لنک خطاب نے تو مارچ کے شرکاء میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیا اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی پر اسماعیل ہنیہ نے اسلامیان پاکستان، اہل کراچی اور جماعت اسلامی کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان حکومتی سطح پر مسئلہ فلسطین کے موقوف کو آگے بڑھاتا رہے۔ میدان جنگ میں بڑی تبدیلیاں ہوئیں ہیں فتح اور کامرانی میں آپ سب ہمارے ساتھ شامل رہے ہیں اور لمحہ لمحہ آپ ہمارے ساتھ تھے۔ ان شاء اللہ بہت جلد ہم سب ایک ساتھ مسجد اقصیٰ میں نماز شکرانہ ادا کریں گے۔
شارع فیصل پر تاحد نگاہ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سے ایمان اور جذبوں کا دریا اور لاوا ابل رہا تھا۔ گیارہ روز تک اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے والے حماس کے مجاہدین نے جنگ بدر کی یاد کو تازہ اور کفر پر لرزہ طاری کر دیا ہے۔ شیطان کا ہر حربہ ناکام ہوگیا اور کفر کی قوتوں کو ذلت ورسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ بدقسمتی سے آج دنیا کے 58سے زائد مسلمانوں کے حکمرانوں نے غلامی کی گلے میں طوق ڈالی ہوئی ہے لیکن امت مسلمہ بیدار ہے اور جاگ رہی ہے۔ کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد، لاہور، پشاور، لندن اور دنیا بھر سے جہاں جہاں مسلمان آباد اور زندہ ہے وہ امت میں بیداری کا عملی ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔ فلسطین کے فیڈر سے دودھ پیتے بچوں نے اسرائیلی فوجیوں کے سامنے پتھر اٹھا کر اُمت کے زندہ ہونے کا ثبوت دیا ہے اور جب تک اُمت کا ایک فرد بھی زندہ ہے فلسطین اور انبیاء کی مقدس سرزمین پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اسلامی ممالک کے حکمران دینی غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کریں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف عملی اقدام کریں ورنہ اُمت مسلمہ کو ایسے بزدل حکمرانوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو ارض مقدس فلسطین کے تحفظ کے لیے میدان عمل میں نکلنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کے قبضے کے خاتمے کے لیے اُمت مسلمہ کے حکمرانوں کو فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اللہ تعالیٰ جب جس سے چاہتا ہے کام لے لیتا ہے۔ ابراہیمؑ کو آگ سے بچانے کے لیے ایک چڑیا نے آگ پر اپنی چونچ سے پانی برسایا۔ ابرہہ کے لشکر کے سامنے ابابیلیں کنکر برسانے آگئیں۔ اور آج پھر وہی تاریخ دھرائی جا رہی ہے۔ آج کے ابرہہ اسرائیل کو فلسطین کے معصوم بچوں نے پتھر مار مار شکست فاش دے دی ہے اور ان کا غرور اور تکبر چکنا چور کر دیا ہے۔ الحمدللہ کراچی کا فلسطین مارچ امت مسلمہ کی آواز ثابت ہوا ہے۔ زبردست جوش وخروش مثالی نظم وضبط کے ذریعے جماعت اسلامی کراچی نے ایک بار پھر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ٹیم اچھی ہو اور مقصد عظیم اور بلند تر ہوتو پھر اللہ پاک اپنی نصرت فرماتا ہے۔ ایک بھرپور ایمانی جوش اور ولولے سے لبریز فلسطین مارچ اہل فلسطین کو جہاں ایک نیا جوش اور ولولہ فراہم کرے گا وہاں یہ مارچ امت کی شان، شوکت، عظمت اور اس کی ہیبت میں بھی اضافہ فرمائے گا۔ قبلہ اول کی آزادی کے لیے جہاد کرنا پوری امت پر فرض ہے۔ فلسطین مارچ کا پیغام یہ ہی ہے کہ قبلہ اول کی حفاظت کے لیے امت مسلمہ کا بچہ بچہ کٹ مرے گا۔ مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ فوری طور پر واپس لیں۔ فلسطین اور کشمیر او آئی سی کی قرار دادوں سے آزاد نہیں ہوگا بلکہ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لیے امت مسلمہ اور اس کے حکمرانوں کو جہاد کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔