افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سانحہ مسجد اقصی

544

مسئلہ فلسطین نوعیت نزاکت اور اہمیت اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد چند باتیں بخوبی واضح ہو جاتی ہیں۔
٭…٭…٭
1 ۔ اول یہ کہ یہودی آج تک اپنے منصوبوں میں اس بنا پر کامیاب ہوتے رہے ہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ان کی حامی و مددگار بنی رہی ہیں اور ان کی اس روش میں آئندہ بھی کسی تغیر کے امکانات نظر نہیں آتے۔ خصوصا امریکا کی پشت پناہی جب تک اسے حاصل ہے، وہ کسی بڑے سے بڑے جرم کے ارتکاب سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔
٭…٭…٭
2۔دوم یہ کہ اشتراکی بلاک سے کوئی امید وابستہ کرنا بالکل غلط ہے۔ وہ اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے کے لیے قطعا کوئی خطرہ مول نہ لے گا۔ زیادہ سے زیادہ آپ اس سے ہتھیار لے سکتے ہیں، اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کے اشتراکیت کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالیں اور اسلام کو دیس نکالا دے دیں۔
٭…٭…٭
3۔سوم یہ کہ اقوام متحدہ ریزولیوشن پاس کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں کرسکتی۔ اس میں یہ دم خم نہیں ہے کہ اسرائیل کو کسی مجرمانہ اقدام سے روک سکے۔
٭…٭…٭
4۔چہارم یہ کہ عرب ممالک کی طاقت اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے قطعی ناکافی ہے۔ پچھلے 34 سال کے تجربات نے یہ بات پوری طرح ثابت کردی ہے۔
٭…٭…٭
ان حقائق کے سامنے آ جانے کے بعد نہ صرف مسجد اقصی، بلکہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت، اس یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقامات مقدسہ کو مستقل طور پر محفوظ کر دینے کے لیے مجتمع کی جائے۔ اب تک یہ غلطی کی گئی ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو ایک عرب مسئلہ بنائے رکھا گیا۔ دنیا کے مسلمان ایک مدت سے کہتے رہے کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کا مسئلہ ہے مگر بعض عرب لیڈروں کو اس پر اصرار رہا کہ نہیں، یہ محض ایک عرب مسئلہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب مسجد اقصی کے سانحے سے ان کی آنکھیں بھی کھل گئی ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی ہے کہ صہیونیت کی عظیم بین الاقوامی سازش کا مقابلہ، جبکہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی پوری تائید و حمایت بھی اس کو حاصل ہے، تنہا عربوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔ دنیا میں اگر ایک کروڑ 20 لاکھ یہودی ایک طاقت ہیں تو 7570 کروڑ مسلمان بھی ایک طاقت ہیں، اور ان کی 32 حکومتیں (موجودہ 57 اسلامی ممالک) اس وقت انڈونیشیا سے مراکو اور مغربی افریقہ تک موجود ہیں۔ ان سب کے سربراہ اگر سر جوڑ کر بیٹھیں، اور روئے زمین کے ہر گوشے میں بسنے والے مسلمان ان کی پشت پر جان و مال کی بازی لگا دینے کے لیے تیار ہو جائیں تو اس مسئلے کو حل کر لینا، ان شاء اللہ کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔
٭…٭…٭
اس سلسلے میں جو عالمی کانفرنس بھی ہو اس کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہے کہ اصل مسئلہ محض مسجد اقصی کی حفاظت کا نہیں ہے۔ مسجد اقصی محفوظ نہیں ہوسکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔ اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلان بالفور سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں، باقی جتنے یہودی 1917ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں انہیں واپیس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور جبر ظلم کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بنا کر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا، بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی اس جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسی ایک کھلی کھلی جارح ریاست کا وجود بجائے خود ایک جرم اور بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے۔ اور عالم اسلامی کے لیے اس سے بھی بڑھ کر وہ اس بنا پر خطرہ ہے کہ اس کے ان جارحانہ ارادوں کا ہدف مسلمانوں کے مقامات مقدسہ ہیں۔ اب اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو ختم ہونا چاہیے۔
٭…٭…٭
فلسطین کے اصل باشندوں کی ایک جمہوری ریاست بننی چاہیے جس میں ملک کے پرانے یہودی باشندوں کو بھی عرب مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح شہری حقوق حاصل ہوں۔ اور باہر سے آئے ہوئے ان غاصبوں کو نکل جانا چاہیے جو زبردستی اس ملک کو قومی وطن اور پھر قومی ریاست بنانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
٭…٭…٭
اس کے سوا فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ رہا امریکا، جو اپنا ضمیر یہودیوں کے ہاتھ رہن رکھ کر اور تمام اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ان غاصبوں کی حمایت کر رہا ہے تو اب وقت آ گیا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان اس کو صاف صاف خبردار کر دیں کہ اس کی یہ روش اگر اسی طرح جاری رہی تو روئے زمین پر ایک مسلمان بھی وہ ایسا نہ پائے گا جس کے دل میں اس کے لیے کوئی ادنی درجہ کا بھی جذبہ خیر سگالی باقی رہ جائے۔ اب وہ خود فیصلہ کر لے کہ اسے یہودیوں کی حمایت میں کہاں تک جانا ہے۔
(تقریر 24 اگست 1969ء)