کھیل کود ہو یا زندگی اور زندہ دلی کے درمیان کسی بھی قسم کا مقابلہ، ہار جیت بہر لحاظ مقدر ہے۔ ویسے بھی اگر مسلم لیگ ن کے مقابل اس حلقے سے تحریک انصاف کا امیدوار ہار گیا ہے تو کچھ عجب اس لیے نہیں کہ یہاں سے مسلم لیگ ن ہی کے نماءnدے ملک وارث کلو کو 2018 کے انتخاب میں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ ملک وارث کلو کی وفات کی وجہ سے خالی ہونے والے نشست پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن نے کامیاب دفع کرتے ہوئے اپنی جیت کو برقرار رکھا اور یوں یہ نشست ن کے ملک معظم کے حصے میں آئی جبکہ تحریک انصاف کے امید وار علی حسین خان، باوجود شدید مقابلہ، 10 ہزار ووٹوں سے پیچھے رہ گئے۔
بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو بے شک اس نشست پر مسلم لیگ ن کی کامیابی اس بات کی علامت ہے کہ حکومت سمیت، پاکستان کے بہت سارے مقتدر اداروں کی نظر میں ن کی کیا حیثیت ہے، اس کے سارے رہنما کتنے بڑے چور، لٹیرے، ڈاکو ہیں اور انہوں نے ملک کے خزانے کو کس طرح دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے، الگ بحث ہے، لیکن ن کی جیت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ عوام اس قسم کے ہر قیاسات کو غلط سمجھتے ہیں اور ایسے سارے الزامات کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔
پاکستان میں صرف مسلم لیگ ن ہی ایسی جماعت نہیں جو بحیثیت جماعت اور اس کے رہنما الزامات کی زد میں آتے ہوں بلکہ کم و بیش ملک کی تمام ہی سیاسی جماعتیں سنگین الزامات کی زد میں رہی ہیں جن کو مختلف اوقات میں اعلانیہ کالعدم قرار بھی دیا جا چکا ہے اور غیر اعلانیہ طور پر بھی وہ شدید پابندیوں کی زد میں رہی ہیں۔ اصل میں پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی جمہوریت کو کھل کر سانس لینے ہی نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکی۔ جمہوریت نام ہی عوام کی رائے کا دوسرا نام ہے لیکن یہاں عوام کی آرا تو ہر عامر اور فوجی ڈکٹیٹر ضرور معلوم کرتا رہا ہے اور اپنے ہی ڈکٹیٹر شپ کو بار بار جمہوریت کے سانچے میں ڈھالنے میں مصروف دکھائی دیا ہے لیکن خود اپنے بنائے سسٹم کو رواں دواں کرتے رہنے میں لیت لعل سے کام لیتا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور پاکستان کے عوام نہ تو تیتر بن سکے اور نہ ہی بٹیر کہلائے جانے کے قابل رہ سکے۔
ایوب خان کا بی ڈی سسٹم، ضیا الحق کی مقامی حکومتوں کا نظام اور غیر جماعتی الیکشن کا انعقاد کے علاوہ پر ویز مشرف کا پارلیمانی نظام کے ساتھ صدر کو وزیر اعظم کا بھی باپ بنا کر پیش کرنا اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ وہ ڈکٹیٹرز جو اپنے منہ سے نکلے ہر لفظ کو ’’دینِ الٰہی اکبر شاہی‘‘ کہنے کے قائل رہے، ان کی دال بھی جھوٹی سچی جمہوریت کے بغیر نہ گل سکی اور یوں جمہوریت حکمرانوں، خواہ وہ سویلین ہوں یا باوردی، گھر کی لونڈی باندی بن کر رہ گئی۔
کہا یہ جاتا ہے کہ پاکستان میں اب تک حقیقی معنوں میں کوئی ’’عوامی‘‘ لیڈر پیدا ہی نہیں ہو سکا۔ یہ بات شاید درست ہی ہو لیکن کیا ایسا نہیں کہ پاکستان میں کسی عوامی لیڈر کو ابھرنے ہی نہیں دیا ہو؟۔ کیا شیخ مجبیب اور بھٹو ’’خواصی‘‘ لیڈر تھے۔ کیا ان کے پیچھے عوامی حمایت نہیں تھی۔ بے نظیر ہو یا نواز شریف، کیا یہ ’’خواصی‘‘ طاقت کے ووٹ لیکر مسند اقتدار پر براجمان ہوتے رہے تھے۔ اگر ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو جو لیڈر بھی جتنا عوامی مقبولیت رکھتا تھا وہ اتنی ہی سنگینی کے ساتھ ’’کسی‘‘ کی کتاب سے حذف کر دیا گیا۔ مجیب الرحمن کو بنگلا دیش سمیت کاٹ دیا گیا، بھٹو کو سولی لٹکا دیا گیا، بینظیر کو خود کش حملے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، ایم کیو ایم کی پوری جماعت کو 72 فرقوں میں تقسیم کر دیا گیا، نواز شریف کو سیاست ہی سے آؤٹ کردیا گیا اور اب بہت تیزی کے ساتھ عمران خان کا بھی اپنے سے پچھلے والوں سے کہیں برا حشر کیا جانے والا ہے۔ اس طرح لیاقت علی خان سے چلنے والا عوامی رہنماؤں کو راستے سے ہٹا دینے کا سلسلہ کسی بھی طرح اپنے اختتام کو چھوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد خان جونیجو کے زمانے سے سول حکمرانوں پر کرپشن کے الزامات کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا لیکن موجودہ حکومت نے نہ صرف کرپشن کے سارے ریکارڈ ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیے بلکہ جس مقام پر پاکستان 73 سال میں پہنچا تھا وہاں سے 200 سے 400 فی صد آگے صرف 3 سال میں پہنچا دیا گیا ہے۔ اب سے پہلے سارے حکمرانوں کو ملک میں بڑھتی کرپشن اور مہنگائی کے سیلاب بہا کر لے جاتے رہے ہیں لیکن سلام اہل پی پی 84، خوشاب والو، آپ اپنے پیٹ پر ایک نہیں دو دو پتھر باندھ لینے کے باوجود پی ٹی آئی کے لیے مرمٹنے کے لیے تیار ہو۔ کیا آپ کی زمینیں سونا اگلتی ہیں اور آسمان سے من و سلویٰ برستا ہے۔ جہاں مہنگائی کے ہاتھوں عاجز لوگ خود کشیاں کر رہے ہوں، مائیں اپنے لخت جگروں کو زہر پلا رہی ہوں اور باپ اپنے چار چار بچوں کو دریا برد کر رہا ہو وہاں آپ ہزاروں کی تعداد میں ایک ایسی جماعت کو ووٹ دینے کے لیے دیوانے بنے ہوئے ہوں جس نے بے روزگاری کا طوفان برپا کر کے رکھ دیا ہو، بستیاں کی بستیاں اجاڑدی ہوں، مساجد مسمار کر کردی ہوں، اور بازار کے بازار مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیے ہوں۔ سلام ہے آپ کے جذبہ صبر و استقلال پر اور ہر قسم کی تنگ دستی کے باوجود ظالمانہ محبت پر۔ آپ کی استقامت کو دیکھتے ہوئے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ اب بھی اسی کو نیا پاکستان اور تبدیلی سمجھتے ہیں تو پھر کم از کم مجھے تو اپنی ذہنی حالت کا معائنہ کراہی لینا چاہیے۔