سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کم اور تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں

209

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق)سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کم اور تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں‘ ریاض نے علاقائی تعلقات اور تہران سے تعاون پر بہتر رویہ اختیار کیا ہے جس کا ایران نے خیرمقدم کیا ہے‘ امریکا، یورپ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ جوبائیڈن کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سعودی عرب نے بھی اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سابق سفارت کار عارف کمال ، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ اور معروف دفاعی تجزیہ کار کرنل (ر) اسد محمود نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بہتر ہونے کا امکان ہے؟‘‘ عارف کمال نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں‘ دیکھنا یہ ہے کہ تعلقات بہتر ہونے کا عمل کب اور کیسے شروع ہو گا‘ سعودی عرب نے علاقائی تعلقات اور ایران سے تعاون پر بہتر رویہ اختیار کیا ہے جس کا ایران نے بھی خیرمقدم کیا ہے۔ دراصل سعودی عرب اور ایران کے درمیان آبی گزر گاہ ہے جہاں سے دنیا کے لیے تیل اور گیس کی لائن گزرتی ہے اس صورت حال میںکشیدگی کا فائدہ ان قوتوںکو ہوتا ہے جو اس علاقے میں اپنی موجودگی رکھنے کے خواہشمند ہیں‘ یہ قوتیں اپنی موجودگی کا جواز پیدا کر نے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ خطے میں ہر وقت کشیدہ صورت حال برقرار رہے‘ گزشتہ برسوں میں سعودی عرب نے امریکا پر زیادہ انحصار کیا ہے‘ امریکا میں جوبائیڈن کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سعودی عرب نے بھی اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا ہے‘ نئی انتظامیہ کا ریا ض پر کچھ دبائو ضرور ہے‘ ریاض اور ان کے درمیان تصادم تو ممکن نہیں جبکہ ایران پر بھی دبائو کم ہوا ہے‘ اس طرح دونوںممالک کے رویے میںکچھ تبدیلی رونما ہوئی ہے تاہم زمینی حقائق ابھی بدلے نہیں ہیں‘ دونوں پر یہ بات لازم ہے کہ وہ بات چیت کا راستہ تلاش کریں ‘ بات چیت سے یہ مراد نہیں لی جائے کہ تعلقات نارمل ہوجائیں گے بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے بات چیت کو آگے بڑھا یا جائے گا جبکہ یہ خطے کی دوسری ریاستوں کے لیے اچھا پیغام ہوگا‘ سعودی عرب اور ایران کی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے خطے میں خودآگہی کی ضرورت ہے جس میں یہ بات باور کرائی جائے کہ تیل اور گیس کی گزرگاہ سے سب کو فائدہ پہنچے گا اور یہ اس خطے کا مشترکا مفاد ہے ‘ خلیج کے دونوں کنارے کے مفادات انرجی سپلائی کی مارکیٹنگ سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 6 دہائیوں کے بعد کشیدگی کم ہونے سے خطے میں بہت سی پریشانیوں کا خاتمہ ہوگا۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ سعودی عرب، ایران کشیدگی کا خاتمہ عالم اسلام کا ایک دیرینہ خواب اور خواہش ہے لیکن ایران کے خلاف امریکا اور یورپ نے ایک محاذ آرائی کی لکیر کھینچی ہوئی ہے‘ دوسری جانب سعودی عرب امریکا اور یورپ کا بڑا شیدائی بنا ہوا ہے‘یہی وجہ ہے کہ یہ ایشوز دوریوں کا باعث بنے ہوئے ہیں‘ جو حالات عالمی سطح پر پیدا ہو رہے ہیں اس میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کو بحال کرنا اور ان کو کشیدگی سے نکالنا ناگزیر ہے‘ اگر یہ کشیدگی برقرار رہتی ہے تو سعودی عرب اور ایران کے وسائل صر ف جنگ و فساد میں ہی ضائع ہو تے رہیں گے‘ حالیہ دور میں پیدا شدہ حالات کی تبدیلی سے یہ غالب گمان ہے کہ کشیدگی کم ہوجائے گی اور دوستی زیادہ گہری نہ بھی ہو ئی تو بہرحال تعلقات میں بہتر ی کا امکان ہے۔ اسد محمود نے کہا کہ سنی اور شیعہ مسلم ریاستیں ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں‘ دونوں اسلامی ممالک میں طاقت کے حصول کی باگ دوڑ میں نقصان مسلمانوںکا ہی ہو رہا ہے‘ مڈل ایسٹ کی ریاستوںکو سوچنا ہوگا کہ آپس کے فروعی معاملات میں اُلجھے رہنا ہے یا پھر ان معاملات سے بالا تر ہوکر خطے کے مفاد کے لیے پیش قدمی کرنا ہے‘ سعودی عرب کا اعتراض ایران پر یہ ہے کہ وہ خطے میں نیو کلیئر پروگرام کو بڑھا وا دے رہا ہے اور خطے میں عسکریت پسندوں کی مدد کر رہا ہے جس سے خطے میں عدم توازن پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت حال میں سعودی عرب کے ولی عہد شاہ سلمان نے بیان میں کہا ہے کہ ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور ہمیں امید ہے کہ ایران سے اچھے تعلقات قائم کرسکیں گے‘ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خطے کی ترقی کے لیے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات ہیں۔یہ خوش آئند بات ہے‘ اس لیے دونوں ممالک کی لیڈر شپ کو اکھٹے بیٹھنا پڑے گا، پاکستان کی پچھلی اور موجودہ حکومتوںنے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی کے لیے ہمیشہ اپنا کر دار ادا کیا ہے‘ اس تناظر میں دونوں ممالک اپنے نظریات سے بالا تر ہوکر خطے کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے بات چیت کے عمل کو جاری رکھیں گے تو پھر خطے میں مثبت اثرات مرتب ہو نے کے زیادہ امکانات ہیں۔