تازہ غزل با ذوق احباب کی نذر

161

تری یاد
زمیں کھا گیا میری چل چل کے کتنی
سمندر جہاں پر سرکتا رہا ہے
اگر ڈوب جانا مقدر ہے میرا
یہ بادل ادھر کیوں بھٹکتا رہا ہے
بڑا وقت گزرا ہے اس حادثے کو
لہو زخم سے کیوں ٹپکتا رہا ہے
ابھی تک نظر سے وہ اوجھل ہے میری
چمن میں اگر گل مہکتا رہا ہے
یقیناً کسی کا وہ دیوانہ ہو گا
جو صحرا میں اکثر بھٹکتا رہا ہے
کبھی چاند نکلے کبھی آئے سورج
جہاں بھر میں کوئی چمکتا رہا ہے
کبھی تو مجھے یاد کر اے ستم گر
تری یاد میں دل سسکتا رہا ہے
شرک و بدعت
الطاف حسین شاہین
ہر طرف شرک و بدعت کے بازار نظر آتے ہیں
قدم قدم ہمیں بربادی کے آثار نظر آتے ہیں
کوئی کام نہ آ?ئےگاتجھے روز محشر الطاف
خودہی بھٹکےگے جو اونچے مینار نظر آتے ہیں