تری یاد
زمیں کھا گیا میری چل چل کے کتنی
سمندر جہاں پر سرکتا رہا ہے
اگر ڈوب جانا مقدر ہے میرا
یہ بادل ادھر کیوں بھٹکتا رہا ہے
بڑا وقت گزرا ہے اس حادثے کو
لہو زخم سے کیوں ٹپکتا رہا ہے
ابھی تک نظر سے وہ اوجھل ہے میری
چمن میں اگر گل مہکتا رہا ہے
یقیناً کسی کا وہ دیوانہ ہو گا
جو صحرا میں اکثر بھٹکتا رہا ہے
کبھی چاند نکلے کبھی آئے سورج
جہاں بھر میں کوئی چمکتا رہا ہے
کبھی تو مجھے یاد کر اے ستم گر
تری یاد میں دل سسکتا رہا ہے
شرک و بدعت
الطاف حسین شاہین
ہر طرف شرک و بدعت کے بازار نظر آتے ہیں
قدم قدم ہمیں بربادی کے آثار نظر آتے ہیں
کوئی کام نہ آ?ئےگاتجھے روز محشر الطاف
خودہی بھٹکےگے جو اونچے مینار نظر آتے ہیں