جنگ بندی ہماری ضرورت یا مجبوری نہیں؟

158

15 ماہ تک امریکا، برطانیہ اور دیگر صلیبیوں کے ڈالر اور اسلحہ سے لیس ہو کر دجالی ریاست (اسرائیل) اہل غزہ پر حملہ آور رہی۔ اِس دوران عالمی ضمیر سوتا اور جاگتا رہا، اقوام متحدہ، عرب لیگ اور او آئی سی سمیت تمام عالمی ادارے اسرائیلی جارحیت اور دہشت گردی کو روکنے میں ناکام رہے۔ اسکول، اسپتال، رفاعی اور امدادی اداروں سمیت خوراک اور پانی کے تمام ذرائع اور ذخائر تباہ کردیے گئے۔ اِنسانی ہمدردی کی بنیاد پر کوئی بھی امداد کسی متاثر تک پہنچنے نہیں دی گئی۔ یہاں تک کہ کھانے کے انتظار میں کھڑے بھوک اور پیاس سے نڈھال بچوں پر بھی بمباری کردی گئی۔ اسپتالوں کے اندر سے عملہ نکال کر زخمیوں اور مریضوں کے دروازے بند کردیے گئے تا کہ وہ تڑپ تڑپ کر مرجائیں۔ مسلم خواتین ڈاکٹرز کو اسپتالوں کے اندر یہودی فوجیوں نے گینگ ریپ کا نشانہ بنایا اور بعدازاں اِن مظلوم خواتین کو قتل کرکے اسپتالوں کے اندر ہی اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا۔ مسلم قیدی خواتین کی اسرائیلی جیلوں کے اندر برہنہ پریڈ کرائی گئی، 50 ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان مرد، خواتین اور بچے موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ معذور، زخمی اور دربار ہوجانے والوں کی تعداد بھی لاتعداد ہے۔ مساجد سمیت پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔

غرضیکہ آج کی دنیا جسے مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کا دعویٰ ہے اِن تمام تر مظالم اور درندگی کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتی اور تماشائی بنی رہی۔ مذمت کے بیانات مظلومین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف رہے، مسلم حکمرانوں سمیت مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی کسی نے بھی کوئی ’’فوجی مدد‘‘ نہیں کی۔ مزید برآں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ اسرائیلی دہشت گردی اور جارحیت محض اہل غزہ اور بیت المقدس کے قریب ترین علاقوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس دوران اسرائیل نے ایران، لبنان، شام، عراق اور یمن تک کے علاقوں اور شہریوں کو نشانہ بنایا۔ اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار اور حسن نصر اللہ سمیت درجنوں مجاہدین رہنمائوں کو بھی انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ دجالی ریاست (اسرائیل) کی قیادت نے اپنے 77 سالہ ناجائز قبضے پر کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا نقشہ بھی جاری کردیا کہ جس میں اسرائیل کی سرحدیں سعودی عرب کے صحرائوں سے ہوتی ہوئی دریائے فرات کے کناروں تک جارہی ہیں۔

یہود و نصاریٰ نے انبیاؑ کی عظیم ہستیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا، یہود و نصاریٰ نے مل کر اہل اسلام کو کس قدر تکلیف پہنچائی، یہود و نصاریٰ خدا کی زمین پر کتنا بڑا فساد اور فتنہ ہیں یہ کوئی آج کی بات نہیں بلکہ صدیوں پہلے قرآن پاک نے اِس کی تصدیق اور وضاحت فرمادی ہے۔ یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ سے کبھی بھی عالمی امن کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ اب تو یہود و نصاریٰ کے ساتھ ایک تیسرا فتنہ ’’ہنود‘‘ کا بھی شامل ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے جن دو غیر ملکی رہنمائوں سے ملاقات کی اُن میں یہودی صدر نیتن یاہو اور ہندو انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی بالترتیب شامل تھے۔ ٹرمپ، نیتن یاہو اور مودی کی ملاقاتوں سے ثابت ہوگیا کہ جب تک طاقت کا توازن اِن تینوں شیطانی قوتوں کے پاس رہے گا تب تک مقبوضہ کشمیر سے مقبوضہ فلسطین تک ’’رقص ِ ابلیس‘‘ جاری رہے گا۔ دنیا انصاف سے خالی اور امن سے محروم رہے گی۔

قدیم اور جدید انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بالآخر ظالم ہی مظلوم کے مقابلے میں ناک رگڑنے پر مجبور ہوا جبکہ مظلوم زخموں سے چور چور ہو کر بھی فاتح اور سرخرو ہو کر میدان جنگ سے باہر آیا۔ اب بھی ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ ’’جنگ بندی‘‘ ہماری کوئی لازمی ضرورت یا مجبوری نہیں بلکہ ہمارے لیے ’’جہاد‘‘ مجبوری اور شہادت ضروری ہے۔ غلامی میں ہم زندہ نہیں رہ سکتے اس لیے ہم زندگی پر موت اور غلامی پر شہادت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ نواسہ رسولؐ سیدنا امام حسینؓ نے کربلا میں ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ’’جب موت نے آنا ہی ہے تو پھر سب سے بہتر شہادت کی موت ہے‘‘۔

اسرائیل شاید اس بات کو بھول رہا ہے کہ ’’جنگ بندی‘‘ ہماری خواہش نہیں بلکہ خود یہودی عوام کی اپنی ضرورت اور مجبوری تھی کیونکہ وہ اپنے پیاروں کو زندہ دیکھنا چاہتے تھے جبکہ ہم نے تو اپنے شہدا کی گنتی ہی چھوڑ دی ہے۔ جن کی نگاہ اللہ کی رضا پر ہو اور جن کا انعام جنت الفردوس ہو انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ وائٹ ہائوس میں بیٹھے دروغہ جہنم کے بیانات پر غور کریں۔ بہرحال یہود، ہنود اور نصاریٰ کی قیادت کو یہ بات بھی اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ ایسی کوئی ’’جنگ بندی‘‘ ہرگز ہرگز کبھی قابل قبول نہیں ہوگی کہ جس کے نتیجے میں مسلمان بیت المقدس سے دستبردار ہوجائیں، آزاد فلسطین ریاست کا مطالبہ واپس لے لیں۔ اللہ پاک تمام مظلومین و اہل ایمان کو فتح اور غلبہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین